کانگریس کا پنتھ سیکولرازم ؟

عام چناؤ میں پارٹی کی ہار کے اسباب کی جانچ کے لئے کانگریس کی تشکیل کمیٹی کے چیئرمین و سینئر لیڈر اے ۔ کے انٹونی نے سیکولرازم کے مسئلے پرپارٹی کی پالیسی پر سوالیہ نشان لگا کرآخر کار ایسا اشو اٹھا دیا جس پر پارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ انٹونی نے کہا سماج کے ایک طبقے کو ایسا لگا کہ کانگریس صرف ایک خاص فرقے کو ہی آگے بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ایک ہفتے میں دیش کی قریب آدھی ریاستوں میں ہارے ہوئے امیدواروں اور دوسرے بڑے لیڈروں کے ساتھ میراتھن منتھن کرنے پر کمیٹی نے پایا کہ مہنگائی اور کرپشن نے بھلے ہی کانگریس نیا ڈوبائی لیکن اسے کھائی میں لے جانے اور حریف نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو تاریخی اونچائی پر پہنچانے کی بڑی وجہ کانگریس کی مسلم پرستی رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کانگریس لیڈروں کی یہ رائے ایسے وقت آئی ہے جب پارٹی مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی تیاری کررہی ہے۔ چناؤ کے دوران اور اس سے پہلے کانگریسیوں کے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں جس طرح اندھا دھند طریقے سے مسلم کارڈ کھیلا، اس پر دیش کے مسلمان تو بھروسہ نہیں کرسکے لیکن اپوزیشن میں مودی جیسے طاقتور متبادل نے ہندوؤں کو بھاجپا کے حق میں ضرور متحدکردیا۔ اس پولارائزیشن کو بنیادی سطح پر لے جانے کے لئے مودی کے پاس آر ایس ایس جیسی ایک اہل متبادل پہلے سے موجود تھا۔ ان امیدواروں نے جو چناؤ ہار گئے تھے، نے مسلم پرستی کے کئی اسباب گنائے جو چناؤ سے پہلے پارٹی نے اپنائے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا یہ کہنا کہ دیش کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ سلمان خورشید کا 9 فیصدی ریزرویشن، کپل سبل چناؤ کی منجھدار میں شاہی امام سے کانگریس کے حق میں فتوی جاری کرنا، دگوجے سنگھ جیسے راہل گاندھی کے قریبی جنرل سکریٹری اوسامہ بن لادن کو اوسامہ جی اور بابا رام دیو کو ٹھگ کہنا پارٹی کو چناؤ میں بہت بھاری پڑا۔ یہ تمام باتیں ان امیدواروں نے انٹونی کمیٹی کو بتائیں جو اپنا چناؤ ہارنے کے بعد دہلی میں بیٹھ کرہار کے اسباب پر غور و خوض کرنے آئے ہیں۔ حالانکہ ریاستی سطح پر شروع ہوا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں اور ابھی اترپردیش ،ہریانہ، پنجاب، گجرات ، راجستھان جیسی ریاستوں سے فیڈ بیک ملنا باقی ہے۔ بدقسمتی یا دوسری پارٹیوں کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس طرح کی ایکطرفہ مسلم پرستی سے ان کواتنا چناوی فائدہ نہیں پہنچا جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ چاہے وہ ترنمول کانگریس ہو، آر جے ڈی ہو، سماجوادی پارٹی ہو یا نتیش کمار کی جنتادل (یو) ہو سبھی نے پنتھ سیکولرازم کی اپنے ڈھنگ سے تشریح شروع کردی اور اسے خوش آمدی کی علامت بنا دیا۔ اس کا ردعمل ہوا ان پارٹیوں نے اکثریتوں کے جذبات کو نظرانداز کیا جانے لگا۔ بہتر ہو کہ کانگریس اور اس کی بڑ بولی سیاسی پارٹیاں یہ دیکھیں کہ بھارت کے آئین کے معماروں نے پنتھ سیکولرازم کا استعمال کرنے کی ضرورت کیوں نہیں سمجھی تھی؟ یہ ایک فرقہ وارانہ لفظ ہے۔ بھارت کو اسے اپنانے کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کیونکہ وہ پہلے ہی اکثریتی اور سرو دھرم احترام کے تئیں وقف تھے۔کانگریس اور اس کی یکساں آئیڈیالوجی والی موقعہ پرست سیاسی پارٹیوں کو یہ عام بات سمجھ لینی چاہئے کہ اگر وہ پنتھ سیکولرازم کے بہانے کسی ایک فرقے کو متحد کریں گے تو دوسرے فرقے میں اس کا رد عمل ہونا ضروری ہوگا۔ انٹونی کا بیان اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہے کیونکہ وہ نہ صرف سونیا گاندھی کے بھروسے مند ہیں بلکہ عام چناؤ میں پارٹی کی ہار کے اسباب کا پتہ لگانے والی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا کانگریس لیڈر شپ اپنی خوشامدی کی پالیسی کو بدلے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟