کہاں رہ گئے اچھے دن؟ مودی حکومت کے30 دن

تمام امیدوں اور توقعات کے ساتھ مرکز ی اقتدار میں آئی مودی سرکار کے عہد کا ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے۔پانچ برسوں کیلئے چنی گئی کسی بھی حکومت کو اس کے ایک ماہ کے کام کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ لیکن جس طرح غیر متوقعہ مینڈیڈ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت بنائی اس میں اس سرکار کے صرف ایک ماہ ہی نہیں بلکہ ایک ایک دن کا تجزیہ ہونا فطری ہے۔ قریب دو مہینے لمبے چلی چناؤ مہم کے دوران بھاجپا کا جو نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا وہ تھا ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ یہ نعرہ عام جنتا کے دل و دماغ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس لئے جس دن نریندر مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا تھا اسی دن سے اچھے دن لوٹنے کی امید کی جارہی ہے۔ عام آدمی کے لئے اچھے دن کا مطلب مہنگائی کم ہونا، نوجوان بے روزگاروں کو نوکری، حکومت میں کرپشن پر لگام لگانا، قانون و سسٹم میں صفائی، بجلی ، پانی جیسی روز مرہ کی دقتوں سے راحت پانا ہے۔ مودی سرکار کو ایک مہینہ پورے ہونے پر مبارکباد اور تنقیدوں کے ساتھ ایک مفادِ عامہ کی عرضی بھی دائر ہوئی ہے۔ ممبئی کی ایک انجمن نے وعدے توڑنے کا الزام لگاتے ہوئے عرض دائر کر پوچھا ہے کہ اچھے دن کہاں ہیں؟ آل انڈیا اینٹی کرپشن اینڈ سٹی زنز ویلفیئر کور کمیٹی و اس کے بانی ایم وی ہالمارگ کی طرف سے ممبئی ہائی کورٹ میں یہ مفاد عامہ کی اپیل دائر کی گئی ہے۔ کانگریس ایم پی سابق وزیر ششی تھرور کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سفید گھوڑے پر سوارایک فیصلہ کن لیڈر کی ساکھ جلد ہی پھینکی پڑنے والی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مودی کی ساکھ جنتا کے درمیان اس وجہ سے مقبول ہوگئی کہ جنتا فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ کے سبب یوپی اے انتظامیہ سے پریشان ہوگئی ہے لیکن انہیں اب لگتا ہے کہ مودی ایک شخص کے انتظامیہ کے انداز کی طاقت اور حدود جلد ہی سامنے آجائیں گی۔ مودی کا وزرا کی غیر موجودگی میں سکریٹریوں سے الگ ملنا ہمارے جمہوری نظام میں اور کیبنٹ کی جوابدہی کے اصول پر درحقیقت کچھ سوال اٹھاتا ہے۔ ہمارے سسٹم کے مطابق عام طور پر وزیر اپنے محکموں کے لئے جوابدہ ہوتے ہیں اس ایک ماہ کے عہد کے دوران آنے والے وقت میں اچھے دن دیکھ پانے کی عام آدمی کی امیدیں بھلے ہی برقرار ہوں لیکن ابھی اچھے دن آگئے ہوں ایسا نہیں لگ رہا ہے۔ مانسون کے بادلوں کی طرح ابھی تو یہ سوہاونے دن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ یہ ضروررہا کہ اس درمیان مودی سرکار نے ٹھہرے کام کے کلچر کو بدلا ہے۔ اعلی سطح پر سرکاری اقدار میں سیاسی پاکیزگی کا ایجنڈہ بھی کچھ ضرورت کارگر ہوتا دکھائی پڑ رہا ہے کیونکہ وزیراعظم نے صاف صفائی کا کام اقتدار کی گنگوتری سے ہی شروع کیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں ہوپایا جس سے لوگوں کو یہ پکا یقین ہوجائے کہ واقعی اچھے دنوں کا وعدہ صرف چناوی جھانسہ نہیں تھا۔ پچھلے دنوں مودی حکومت نے ریل کرایہ مال بھاڑے میں زبردست اضافہ کرکے کڑوی دوا جنتا کو دے دی ہے۔ ریلوے کی تاریخ میں کبھی ایک ساتھ کرایہ میں اتنا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ مال بھاڑہ اتنا بڑھ جانے سے مہنگائی کا اور کرنٹ لگنا طے ہے۔ بڑھی ہوئی شرحیں لاگو کردی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ سیشن 7 جولائی سے شروع ہورہا ہے کیا سرکار ریلوے بجٹ میں یہ اضافہ نہیں کر سکتی تھی؟ ان باتوں پر نریندر مودی یوپی اے سرکار کی تنقید کرتے تھے اب خود بھی وہی کررہے ہیں۔ سرکار کئی اور سیکٹروں میں سبسڈی کا بوجھ کم کرنا چاہتی ہے۔ خاص کر تیل سیکٹر میں۔ ظاہر ہے کہ اس پر عمل ہوا تو غریبوں کو ملنے والا سستا مٹی کا تیل مہنگا ہوجائے گا۔ رسوئی گیس کے دام بھی اتنے بڑھ جائیں گے کہ درمیانے طبقے کے اچھے دنوں کے خواب ایک دم چکنا چور ہوجائیں گے۔ عراق بحران نے جہاں باہری محاذ پر سرکار کیلئے اگنی پریکشا کی چنوتی کھڑی کردی ہے وہیں مہنگائی اور بڑھ جانے سے سرکار کو گھریلو محاذ پر بھی بڑی چنوتی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران سست دکھائی دینے والی دیش کی بڑی افسر شاہی نئی حکومت کے تیوروں سے ہلکان دکھائی پڑتی ہے وہیں وزیر اعظم نریندر مودی سرکار چلانے کے اپنے طریقے کے سبب وزیر کی جگہ خود مودی ہی صرف سروے سروا سرخیوں میں ہیں بلکہ جنتا سے رابطہ کرنے میں بھی منتری بہت پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔ حلف برداری کے دوران سارک ممالک کے سربراہ مملکت کو بلانے کے بعد پہلے غیر ملکی دورہ کیلئے بھوٹان کو چن کر وزیر اعظم نے پڑوسی دیشوں سے بہتر تعلق بنانے کا صاف پیغام دے کر دنیا کی توجہ اپنی طرف مائل کی۔ اسی دوران ویزا تنازعے کے سبب امریکہ سے خود کا خوشگوار رشتہ نہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم نے امریکہ جانے کا پروگرام طے کرکے سب کو چونکا دیا۔مودی سرکار کے سامنے کچھ غیر متوقعہ چنوتیاں بھی آکھڑی ہوئی ہیں، ان میں ایک ہے کمزور مانسون دوسرا عراق بحران۔ان دونوں چنوتیوں کے چلتے اس سرکار کووہ حق بھی نہیں ملا جو عام طور پر کسی نئی حکومت کو ملتا ہے۔ ایک مہینہ پورا ہونے پر شروع ہوئی تنقیدوں پر اپنی رائے زنی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہر نئی سرکار کو کچھ وقت دیا جاتا ہے جسے ہنی مون پیریڈ کہتے ہیں۔ پچھلی سرکار کے لئے بھی 100 دن دئے گئے تھے لیکن ہمیں100 گھنٹے بھی نہیں ملے۔انہوں نے کہا 67 سال کے مقابلے ایک مہینہ کچھ نہیں ہوتا۔اپنی مقبولیت کے مطابق مودی نے سخت فیصلے میں کوئی ٹال مٹول نہ دکھانے کا ارادہ ظاہرکیا۔ اگلے مہینے میں ریلوے بجٹ کے ساتھ عام بجٹ آنا ہے جس طرح کے اقتصادی حالات ہیں ان میں بہت راحت کی امید نہیں ہے۔ باوجود اس کے مودی سرکار سے امید کی جارہی ہے کہ وہ دیش میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنائیں گے جس سے نوکریوں کی گنجائش بنے اور بے روزگار لڑکوں میں مایوسی کم ہو۔ ریل کرایہ بڑھنے، مانسون اوسط سے کم رہنے کی خبروں سے مہنگائی اور بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ یوپی اے سرکار کے فیصلوں پر مہر لگا کر مودی سرکار کانگریس کی بی ٹی کہی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ درمیانہ اورکمزور طبقہ جس نے مہنگائی سے پریشان ہوکر کانگریس کو سبق سکھایا وہ مودی سرکار کے ابتدائی فیصلوں کو مجبوری مان کر فی الحال صبر کر سکتی ہے لیکن وہ کب تک یہ کڑوی دوا نگلتا رہے گا یہ کہنا مشکل ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟