دو روپے کے جھگڑے میں داروغہ نے کیا طلبہ کا انکاؤنٹر!

محض دو روپے کے لئے ٹیلی فون بل کے تنازعے میں 12 سال پہلے بہار پولیس نے ڈکیٹ بتا کر تین طالبعلموں کو فرضی مڈ بھیڑ میں مار دیا تھا۔ گذشتہ منگل کو سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے پٹنہ کے ایک تھانہ انچارج کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ ایک سپاہی اور چھ تاجروں کو تاحیات عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ پٹنہ کے اپر ضلع و سیشن جج روی شنکر سنہا نے واقعہ کوایک ہی سنگین نوعیت کا معاملہ مانا ہے۔ پردیش میں پہلی بار فرضی مڈ بھیڑ معاملے میں ملزم تھانہ انچارج شمس عالم کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ معاملہ28 دسمبر2002ء کا ہے۔ وکاس رنجن، پرشانت اور ہمانشو فون کرنے کے لئے آشیانہ نگر کے پاس ایک مارکیٹ میں گئے تھے۔ یہاں ایس ٹی ڈی بوتھ چلانے والے کملیش نے ان سے دو روپے زیادہ لے لئے اس پر ان کا جھگڑا ہوگیا۔ کملیش نے دیگر دوکانداروں کے ساتھ مل کر تین طالبعلموں کی جم کر پٹائی کی۔ اس کے بعد دوکانوں کے شٹر گراکر شاستری نگر تھانہ پولیس کو خبردی گئی۔ یہ واقعہ شام 4 بجے کا تھا۔ پولیس نے ہارڈ ویئر انجینئرنگ کے طالبعلم وکاس رنجن یادو اور آر پی ایس کالج کے طالبعلم پرشانت سنگھ اور ذاکر حسین بی ایس سی فرسٹ ایئر کے طالبعلم ہمانشو یادو کو خطرناک مجرم بتاتے ہوئے داروغہ نے تاجروں کے ساتھ ملی بھگت کر تینوں زخمی طالبعلموں کو فرضی مڈ بھیڑ میں مار ڈالا تھا۔ داروغہ شمس عالم نے تینوں طالبعلموں کو اپنی سرکاری ریوالور سے قریب سے گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا تھا۔ داروغہ نے اس واقعہ کو ذاتی فائدے اور انعام پانے کے لالچ میں انجام دیا تھا۔ داروغہ ان طالبعلموں کو علاج کے لئے ہسپتال نہیں لے گئے۔ایڈیشنل اپر ضلع و سیشن جج روی شنکر سنگھ فرضی مڈ بھیڑ معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے یہ ریمارکس دئے جج نے کہا داروغہ نے فرضی طریقے سے طالبعلموں کے پاس سے دو دیسی پستول اور گولی برآمدگی دکھائی۔ داروغہ کی ہدایت پر کراس موبائل کے سپاہی ارون کمار سنگھ نے وار لیس پر خبر دی تھی کہ تین خطرناک بدمعاش فون بوتھ میں ڈکیتی کرنے کے دوران انکاؤنٹر میں مارے گئے۔
موت کی سزا کی تصدیق کے لئے عدالت معاملے کو ہائی کورٹ بھیجے گی اس کے بعد ریاستی سرکار کی طرف سے سزا پر مہر لگانے کے لئے سرکاری اپیل کرے گی۔ عدالت نے قصوروار داروغہ و سپاہی پر 60-60 ہزار اور چھ دوکانداروں پر15-15 ہزار روپے کا جرمانہ بھی ٹھونکا ہے۔ عدالت نے کہا کہ جرمانے کی رقم واردات میں مارے گئے تینوں طالبعلموں کے خاندانوں کو دی جائے گی۔ اگر قصوروار جرمانہ نہیں دیتے تو انہیں ایک دو ماہ قید کی سزا مزید بھگتنی پڑے گی۔ اس سے پہلے بسر جیل میں بند شمس عالم اور دیگر ملزموں کو سزا سنانے کے لئے عدالت میں 12 بجے سخت حفاظت میں پیش کیا گیا۔ داروغہ سمیت تمام8 ملزمان فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائرکرسکتے ہیں۔ دن کے 12 بجتے ہی قصورواروں کو سخت چوکسی میں عدالت میں لایا گیا۔ کٹہرے میں 26 منٹ تک سبھی کھڑے رہے۔12-22 منٹ پر جج نے سزا سنائی شروع کی۔ مجرم خاموش تھے شاید سوچ رہے ہوں گے کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟