نکسلی ہر سال 100 کروڑ روپے وصول کرلیتے ہیں!

نکسلواد ہمارے ملک کے سب سے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے۔ملک کے کم سے کم 10 راجیہ اس سے سیدھے متاثر ہیں۔ یوپی اے سرکار اپنے 10 سال کے دور میں اس سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اب مودی سرکار اس مسئلے سے کیسے نمٹتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ مودی سرکار نے نکسلیوں سے نمٹنے کے لئے نئے سرے سے ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ گرہ منترالیہ نے اس کے لئے27 جون کو بیٹھک بلائی ہے۔ دیش کے دس نکسل متاثر راجیوں کے نمائندے اس میں حصہ لیں گے۔ وزارت داخلہ نے آندھرا پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڑیسہ، تلنگانہ، یوپی اور پشچمی بنگال کے اعلی افسران کو بیٹھک کے لئے بلایا ہے۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ان راجیوں کو نکسل مہم پر فیڈ بیک کے ساتھ نئے سرے سے فیوچر پلان پیش کرنے کوکہا ہے۔ نکسل آندولن کا ایک بہت ہی اہم نقطہ ہے پیسہ۔ چھتیس گڑھ دیش میں ماؤ واد سے سب سے زیادہ متاثر ریاست ہے اور اس کی ایک وجہ نکسلیوں ، ماؤوادیوں کو وہاں سے ملنے والی بڑی رقم ہے اور مختلف ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق ماؤ وادی راجیہ میں ہر سال لگ بھگ 80 سے100 کروڑ روپے تک وصول کرتے ہیں۔ راجیہ کے نکسل متاثر راج نند گاؤں ضلع کے سیتا گاؤں اور سوندھی کے جنگل میں اس سال چار مارچ کو سکیورٹی فورسز نے نکسلیوں کے ذریعے بنایا گیا ایک ڈمپ برآمد کیا تھا جس میں 29 لاکھ روپے تھے۔ پولیس نے نکسلوادیوں کی اتنی بڑی رقم پہلی بار پکڑی تھی۔ نکسل متاثر علاقوں میں ایسے سینکڑوں ڈمپ ہیں جس میں نکسلی اپنی رقم چھپا کر رکھتے ہیں۔ ڈمپ حقیقت میں زمین کھود کر بنائی گئی ایک ٹنکی ہوتی ہے۔مختلف معاملوں سے پولیس کو نکسلیوں کے ذریعے یہاں سے ہر سال80سے100 کروڑ روپے کی رقم جمع کرنے کی جانکاری ملی ہے۔ اس کی تصدیق گذشتہ دنوں پکڑے گئے ڈنڈ کارن اسپیشل زونل کمیٹی کے ترجمان گڑما اسینڈی عرف جی بی کے پرساد نے مانا ہے ۔ افسران نے بتایا کہ نکسلی اپنے اثر والے علاقوں کی جنتا سے لگ بھگ تین کروڑ روپے، ویاپاریوں سے لگ بھگ 10 کروڑ روپے، ٹھیکیداروں سے20 کروڑ روپے، ٹرانسپورٹروں سے لب بھگ10 کروڑ روپے، تیندوپتا ٹھیکیداروں سے لگ بھگ 2 کروڑ روپے، بانس اور جنگل کاٹنے والے ٹھیکیداروں سے لگ بھگ15 کروڑ روپے،متاثرہ علاقے میں رہنے والے صنعتکاروں سے لگ بھگ20 کروڑ روپے اور علاقے میں کام کرنے والے ملازمین اور افسران سے چندے کی شکل میں لگ بھگ 2 کروڑ روپے وصولتے ہیں۔فنڈ بہت ہی احتیاط کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے۔ ہر سطح پر صرف دو لوگوں کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ فنڈ کہاں رکھا جارہا ہے اور کہاں اکٹھا کیا جارہا ہے۔ نکسلی ماؤوادی روپئے کا استعمال پرنٹنگ کام ، دواؤں اور حامیوں کے علاج، کمیونی کیشن ذرائع کی خریداری، ہتھیار اور گولہ بارود کی خریداری، کھانے کے سامان کی خریداری میں کرتے ہیں۔ حامیوں اور ورکروں کو جیل سے باہر نکالنے کے لئے عدالتی کارروائی پر بھی فنڈ خرچ کیا جاتا ہے۔ اکھٹا کی گئی رقم کو بہت ہی احتیاط کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔اس سے حامیوں کیلئے گاڑیا خریدی جاری ہیں،سونے کے بسکٹ خریدے جاتے ہیں اور کئی بار بینک میں بھی رکھے جاتے ہیں۔ مرکزی سرکار و ریاستی سرکاروں کو نکسلیوں ،ماؤوادیوں سے صحیح معنی میں لڑنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ان کی آمدنی پر کنٹرول ہو۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ان کی دہشت ختم ہوگی۔ اکیلے ملٹری یا پولیس کارروائی سے یہ مسئلہ ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟