شیطانی چالوں سے نہ باز آنے والا چین!
چین اپنی فطرت سے باز نہیں آرہا ہے۔ اپنے پرانے برتاؤ کے مطابق اس نے ایسے وقت میں متنازعہ نقطوں کو کھڑا کردیا ہے جب بھارت کے نائب صدر حامد انصاری چین کی دعوت پر پیچنگ کے دورے پر ہیں۔ عادتیں اچھی ہوں یا بری وقت کے ساتھ ساتھ کردار کا ایک اندرونی حصہ بن جاتی ہیں۔ پنچ شیل کی 60 ویں سالگرہ پر اگر ایک طرف ہمارے نائب صدر حامد انصاری کو اپنا مہمان بنا کر رشتوں کو آسانی سے بلندیاں دینے کی بات کررہا ہے تو دوسری طرف اروناچل پردیش کو اپنا حصہ دکھانے والا نقشہ دنیا کو دکھا رہا ہے تو اس میں کونسا تعجب ہے؟چین کے سرکاری اخبار ’’پیپلز ڈیلی‘‘ میں چین کا ایک ایسا ہی نقشہ شائع ہوا ہے جو بھارت کے لئے گہری تشویش پیدا کرتا ہے۔ نئے نقشے میں اروناشل پردش کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے بڑے حصے کو چین کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ پچھلے قریب ایک ہفتے سے چین بھارت کو اکسانے والے اشارے دے رہا ہے۔ چینی فوج نے اتراکھنڈ کے بارہ ہوتی علاقے میں گھس پیٹھ کی اور کچھ دیر رہنے کے بعد پیچھے واپس لوٹے۔ اسی طرح لداخ میں گونگ جھیل کے ہندوستانی علاقے میں گھس کر اس پر اپنا دعوی جتایا۔ اس کے علاوہ چین پاکستانی مقبوضہ کشمیر (پی او) میں ریل لائن بچھانے کی اسکیمبنا رہاہے۔ چین نے اپنے مغربی شہرشن زیانگ کے کراگر علاقے سے پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو جوڑنے والی ریل لائن بنانے کے لئے شروعاتی اسٹڈی کرانے کو لیکر فنڈ بھی جاری کردیا ہے۔ 1800 کلو میٹر چین۔ پاکستان ریلوے لائن اسلام آباد اور کراچی تک لے جانے کی اسکیم ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جس پرآزادی کے ٹھیک بعد1948ء میں پاکستانی فوجوں کے ساتھ مل کر قبائلیوں نے بھارت پر حملہ کیا تھا اور اس کا بڑا حصہ اپنے قبضے میں کرلیا تھا تب سے بھارت اس پر اپنا دعوی پیش کرتا رہا ہے۔ اس سے بھی خطرناک حرکت وہ برہمپتر ندی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے میں دکھا رہا ہے جس کا خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔28 جون 1954ء کو بھارت۔ چین ، میانمار نے بین الاقوامی رشتوں کے تعین پر پانچ یعنی پنچشیل پر دستخط کئے تھے اس کے مطابق ان دیشوں نے ایک دوسرے کی سرکاری یکجہتی کا احترام کرنے ، دوسرے کی سرداری کو ماننے، ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملوں میں مداخلت نہ کرنے، پرامن اصول کے وجود کے تئیں خود کو عہد بند کیا تھا مگر برتاؤ میں جو سامنے آیا اس زخم کے درد سے بھارت آج تک نہیں سنبھل پایا۔ چین نے بھارت میں توقع کی تھی کہ اس کے ہر پھیلاؤ والے قدم کی حمایت کرے ۔1962ء میں اس نے بھارت پر حملہ کیا پھر بھارت نے نکسلیوں کو ہتھیار دئے ۔ ان کو ٹریننگ کے ذریعے مدد کی۔ ہر بین الاقوامی اسٹیج پر بھارت مخالف رویہ اختیار کیا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس میں پنچشیل کہاں تھے؟ دراصل اس تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نیت ٹھیک نہ ہو تو اچھے سے اچھے اصول بھی بے سود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ چین بیشک ان دنوں ہمارا سب سے بڑا کاروباری سانجھیدار بننے کی سمت میں جیجان سے لگا ہوا ہے لیکن اس نے ایسے غیر متوازن تجارت کا راستہ بنایا جس کا تمام فائدہ صرف اسی تک پہنچ رہا ہے۔ مودی سرکار چین کے خطرے اور اس سے متعلقہ فائدوں کے درمیان بیشک پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت کے زمانے میں غیر متوقعہ سرحد پر ڈھانچے کھڑے کرنے کی تیاری بھی شروع ہوگئی اور ان علاقوں میںآبادی بسانے کی بھی اسکیم کو بھی بنیادی شکل دے رہا ہے۔ منہ توڑ جواب کی شکل میں اروناچل پردیش کے ہی ایم پی کرن رٹجو کو وزیر مملکت کی شکل میں تمام ذمہ داریاں نبھانے کا موقعہ دیا گیا ہے۔ ایک طرف نئے وزیر اعظم مودی کے حکمراں ہوتے ہوئے بھی اس نے تعلقات بہتر بنانے کی دہائی دینا شروع کردی۔ ساتھ ہی وہ اپنی پاؤں پھیلانے والی پالیسی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کے جغرافیائی حصے پر دعوی بھی ٹھوک رہا ہے۔ اس لئے بھارت کو چین کے ساتھ رشتوں میں بہت چوکسی برتنی ہوگی۔ اس کی شیطانی چال پر لگام لگانے کے لئے ضروری یہ بھی ہے کہ بھارت میں کھپائے جانے والے اربوں کھربوں کے چینی مال پر پابندی لگادی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ بھارت ،جاپان،ویتنام، فلپن جیسے چین سے متاثرہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دی جائے۔ چین کو دو ٹوک پیغام دینا ضروری ہے او رمودی سرکار سے یہ ہی امید ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں