تپس پال:صرف معافی سے کام نہیں چلے گا

مغربی بنگال کے کرشنا نگر پارلیمانی حلقے سے ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر چن کر لوک سبھا پہنچے تپسپال کی اپنی سیاسی حریفوں کو دھمکانے کے دوران کی گئی خاتون مخالف رائے زنی پوری طرح سے قابل قبول نہیں بلکہ قابل مذمت ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ کوئی لیڈر اور خاص طور سے ایک ایم پی ویسی زبان کا استعمال کرسکتا ہے جیسی تپسپال نے کی ہے۔ ایم پی نے پارلیمانی تقاضوں کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ سی پی ایم کے ورکروں نے ان کے حمایتیوں کے خلاف کچھ بھی کہا تو وہ دکھا دیں گے کہ وہ سب سے بڑے رنگ باز ہیں۔ یہاں تک کہا کہ انہیں اپنے ورکروں کو بھیج کر سی پی ایم کی خاتون ورکروں کی آبروریزی کروادیں گے تاکہ انہیں سبق ملے۔ نیوز چینل پرتپس کے بیان کو دکھانے جانے پر مغربی بنگال سمیت پورے دیش میں اس کا ردعمل سامنے آیا ۔یہ فطری ہی تھا کہ ترنمول کانگریس کی سینئر لیڈر شپ اور چوطرفہ بڑھتے دباؤ کے بعد تپسپال نے اس بیان کے لئے غیر مشروط معافی مانگ لی لیکن پورا معاملہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مغربی بنگال میں تشدد کی سیاست کو بدلنے میں ممتا بنرجی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے اپنے حریفوں کے تئیں بیہودہ الفاظ کا استعمال چناؤ کمپین میں کیا تھا کیونکہ اس طرح کی زبان تو کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے۔ اس سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا کہ انہوں نے ایک خط لکھ کر معافی مانگ لی ہے کیونکہ ایک توا ن کا خط صرف اپنی پارٹی کے لیڈروں کو مخاطب ہے اور دوسرے انہیں فوری معافی بھی مل گئی۔ رہی بات مغربی بنگال کی وزیر اعلی اور ترنمول کانگریس لیڈر ممتا بنرجی کی تو ان کا رد عمل اور بھی زیادہ چونکانے والا رہا۔ تپس کی گرفتاری کی مانگ اٹھائے جانے پر ممتا بنرجی کہتی ہیں ویسے تو تپس نے سنگین جرم کیا ہے لیکن کیا میں ان کی جان لے لوں؟ غور طلب ہے لوک سبھا چناؤ کے دوران تپسپال جو ایک بنگلہ اداکار بھی ہیں،مارکسی ورکروں کے خلاف غیرمہذب بیان دیا کہ ترنمول کے کسی بھی شخص کو ہاتھ لگایا تو لڑکے بھیج کر مارکس وادی پارٹی کے گھر میں ریپ کرادوں گا اور گولی مروادوں گا۔ بیشک مغربی بنگال میں سیاسی تشدد کی پرانی تاریخ رہی ہے جس نے کانگریس لے کر مارکسوادی پارٹی کے لمبے عہد کے دوران شدت اختیار کرلی لیکن ترنمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد وہاں کا سیاسی طور طریقہ بالکل نہیں بدلا ،بلکہ ترنمول نے بغاوت کی سیاست کو ہی آگے بڑھایا۔ اگر بد زبان لیڈروں کو اتنی آسانی سے معافی مل جائے گی تو پھر اس میں شبہ ہے کہ ان کے جیسے لیڈروں کو کوئی سبق سکھایا جاسکتا ہے۔ تپسپال نے جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ قانونی کارروائی کی مانگ کرتے ہیں۔ ممتا بنرجی کو اس کا احساس ہونا چاہئے کہ تمام سیاسی کامیابیوں کے باوجود ترنمول کانگریس کی ساکھ ایک ایسی پارٹی کی بنتی جارہی ہے جس کے لیڈر بے لگام ہونے کے ساتھ ساتھ تشدد میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ترنمول کانگریس نے خود کو پال کے اس بیان سے الگ رکھا ہے لیکن اسے ان کی معافی کو ناکافی مان کر رفع دفع نہیں کرنا چاہئے بلکہ ترنمول کو ان کے خلاف سخت کارروائی کر ایک نئے شروعات کرنی چاہئے۔ صرف معافی سے کام نہیں چلے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!