یوپی میں بڑھتے جرائم اور بے حس اکھلیش سرکار!

اترپردیش میں نہ تو جرم کم ہورہے ہیں اور نہ ہی اکھلیش سرکار قانون و انتظام پر قابو پا رہی ہے۔جرم لگاتار بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سرکار کہتی ہے کہ وہ ایسے معاملوں کو روکنے کے لئے کڑے قدم اٹھا رہی ہے لیکن عام لوگوں کے درمیان اس کا الٹا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عام جنتا کو لگتا ہے کہ پولیس جو کارروائی کررہی ہے وہ صرف دکھاوے کے لئے ہے۔مقدمے درج ہوتے ہیں تو ان میں کئی طرح کی خامیاں چھوڑ دی جاتی ہیں۔ اس کا فائدہ مجرموں کوملتا ہے۔پھر بدایوں کی رونگٹے کھڑے کردینے والی بربر واردات اور ریپ کے دیگر واقعات کو دیکھ کر وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ساتھ ساتھ دیگر سپا لیڈروں نے جس طرح کے بیان دئے ہیں اس سے انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا ہے ۔ یہ بیان یہ ہی بتاتے ہیں کہ سپا نیتاؤں کو نہ تو اپنی بھول کا احساس ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھ پا رہے ہیں کہ اترپردیش انتظامیہ کی چھوی کس طرح تار تار ہورہی ہے؟ یہ عام بات نہیں کہ امریکی وزارت خارجہ سے لیکر اقوام متحدہ کے چیف تک حیرانی جتا رہے ہیں۔اس پر اترپردیش کے وزیر اعلی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات تو سب جگہ ہوتے رہتے ہیں۔ پارٹی کے اعلی لیڈر رام گوپال یادو نے پردیش کی بدحال تصویر کا ٹھیکرا تو میڈیا پر ہی پھوڑتے ہوئے کہا کہ کئی جگہوں پر جب لڑکیاں اور لڑکوں کے رشتے سامنے آجاتے ہیں تب اسے بلاتکار کہہ دیا جاتا ہے۔ایسے واقعات راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں بھی ہورہے ہیں لیکن وہ سرخیاں نہیں بن رہیں۔ میڈیا پر کھیج اتارتے ہوئے ملائم نے کہاملزمین کے خلاف کڑی کارروائی کی جارہی ہے۔ آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ بدایوں کا واقعہ ملزمین کی ہمت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ پولیس نے کس طرح ملزموں کی طرح برتاؤ کیا۔ جن پولیس ملازمین کو متاثرہ پریواروں کی مدد کرنی چاہئے تھی وہ کہہ رہے تھے کہ’ دیکھو کہیں انہیں پیڑ پر تو نہیں لٹکا دیا گیا۔‘ یہ پہلی بار نہیں جب اترپردیش میں پولیس نے اپرادھیوں جیسا برتاؤ کیا ہو یا پھران کی طرفداری کی ہو۔ سیتا پور میں ایک بچی کے ساتھ ریپ ہوا اور اس کی بھی ہتیا کر لا ش پیڑ پر لٹکا دی گئی۔ پولیس نے ہتیا کا کیس درج کر جانچ شروع کی۔پریوار والوں کے کہنے کے باوجود ریپ کا کیس درج نہیں کیا گیا۔اس سے لوگوں میں غلط پیغام گیا۔ ان بڑھتے واقعات پر روک لگائی جائے۔ یوپی کی سپا سرکار اس کا کوئیتسلی بخش جواب نہیں دے رہی ہے۔اس کے الٹ سپا کے نیتاؤں کے عجیب و غریب بیان آرہے ہیں۔ اس سے لوگوں کا غصہ اور بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اترپردیش ان ریاستوں میں اول ہے جہاں پولیس برسراقتدار پارٹی کی سیاسی برانچ کی طرح کام کرتی ہے اور خاص کر تب جب سماجوادی پارٹی اقتدار میں آتی ہے۔20 دنوں کے اندر یوپی میں 17 نابالغوں سے بالاتکار کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ 15 نابالغ لڑکیوں کوریپ کے بعد موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ 60سے65 فیصدی ریپ یوپی میں رفع حاجت جاتے وقت انجام دئے جاتے ہیں۔یوپی انتظامیہ کہیں بھی پھرتی کے ساتھ کام نہیں کر پا رہا ہے۔ ہر معاملے میں ڈھیلا ڈھالا رویہ ہے اس سے سر پھیروں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ہر طرح کے جرم لگاتار بڑ ھ رہے ہیں۔درجنوں جرم ایسے ہیں جو درج ہی نہیں ہوتے۔ پولیس تھانوں میں عام شہری جانا پسند نہیں کرتے۔لوک سبھا چناؤ میں سپا کی فضیحت ہوتے سب نے دیکھی ہے۔ اگر یہ ہی حال رہا تو ڈھائی تین سال بعد ودھان سبھا چناؤ میں کیا سپا کا وہی حال ہوگا جو دہلی ودھان سبھا چناؤ میں کانگریس کا ہوا تھا یا لوک سبھا چناؤ میں بسپا کا ہوا تھا؟اگر اکھلیش سرکار اب بھی نہیں جاگی تو اس کو انجام بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟