تحریک طالبان کی بڑھتی طاقت و ہمت!

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہوا حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آتنکی پاکستان میں جب چاہیں جہاں چاہیں حملہ کرسکتے ہیں۔ طالبان نے ایسے وقت پر یہ چنوتی دی ہے جب پاکستان کی سرکار اورفوج کی طالبان سے لڑنے کی صلاحیت پر پہلے سے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے آتنکیوں کی منشا ایئرپورٹ پر لمبے وقت تک قبضہ جمائے رکھنے کی تھی۔ فوج کے مطابق آتنکی جہازوں اور ایئرپورٹ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ پہلی بار نہیں جبممنوعہ تنظیم تحریک طالبان نے جس نے اس تازہ حملے کی ذمہ داری لی ہے ،نے ہوائی اڈوں پر نشانہ سادھا ہے۔ اگست2013ء کو سکیورٹی فورسز کی پوشاک میں آئے آتنکیوں نے راولپنڈی کے بینظیر بھٹو ایئرپورٹ اور چکلالہ ایئربیس پر حملہ کی ناکام کوشش کی۔ 15 دسمبر 2012ء کو آتنکیوں نے پیشاور ایئرپورٹ احاطے میں گھسنے کی کوشش میں پانچ راکٹ داغے اور دھماکہ خیز مادے سے لدی کار میں حملہ کیا جس میں9لوگ مارے گئے۔ 22 مئی 2011ء کو پاک۔ طالبان نے کراچی کے مہران نو سینک اڈے پر حملہ کیا جس میں18 سکیورٹی فورس کے جوان مارے گئے۔15 آتنکی ڈھیر کردئے گئے اور پاک ایئرفورس کے2 B3 اورین سرویلانس ایئرکرافٹ کو آتنکیوں نے اڑادیا۔سوموار دوپہر بعد نیم فوجی رینجرز کے ترجمان سبطین رضوی نے بتایا حملہ ختم ہوچکا ہے ، ہم نے علاقے کو سبھی آتنکیوں سے آزا د کرالیا ہے پرممنوعہ تنظیم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری کا دعوی کیا ہے۔ٹی ٹی پی کے ترجمان شہید اللہ شاہد نے میڈیاکو جاری بیان میں کہا ہم نے یہ حملہ کیا ہے اور یہ پیغام پاکستان سرکار کے لئے ہے کہ گاؤں پر بم حملوں میں بے قصور لوگوں کے قتل کا جواب دینے کے لئے ہم ابھی زندہ ہیں۔ شاہد نے کہا کہ ہم نے ایک (محسود کے لئے) بدلہ لے لیا ہے۔ ہمیں سینکڑوں کے لئے بدلہ لینا ہے۔ دراصل پاکستان میں اس وقت اقدار کے دو مرکز ہیں جو حالات اور بگاڑ رہے ہیں۔ ایک طرف نواز شریف سرکار ہے تو دوسری جانب پاکستان فوج ہے۔ پردھان منتری نواز شریف کی سرکار طالبان سے شانتی وارتا کرنے کے حق میں ہے۔ اس شانتی وارتا کے لئے اس نے طالبان کی تمام شرطیں مان لی تھیں۔ یہاں تک کہ سرکاری کی طرف سے وارتا کا ر بھی ایسے چنے گئے تھے جو طالبان حمایتی مانے جاتے ہیں۔ فوج طالبان سے وارتا اور سمجھوتے کی مخالفت کررہی ہے کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ پہلے پاکستانی طالبان کی طاقت کم کرنے کے لئے فوجی کارروائی ضروری ہے۔افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ خود پاکستانی سینا میں دو گٹ ہیں ایک گٹ طالبان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو دوسرا اس کے خلاف سخت فوجی کارروائی ضروری مانتا ہے۔ سرکار اب اگر شانتی وارتا جاری رکھتی ہے تو مانا جائے گا کہ طالبان کے آگے سرکار نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اور اگر طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کرتی ہے تو ممکن ہے کہ طالبان اور زیادہ بڑے حملے ہیں۔کڑوی سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان کا مقام آتنک واد سے متاثر دیشوں میں سب سے اوپر ہے۔ اس معاملے میں اس کی حالت عراق،سیریا اور افغانستان جیسے دیشوں کے جیسی نہیں بلکہ کچھ معاملوں میں ان سے بھی زیادہ خراب ہے۔ پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کے 2013-18 کے مسودے کے مطابق وہاں 2001سے2013ء کے درمیان ہنسا کے 13721 واقعات ہوئے جو عراق میں ہوئے واقعات سے کچھ ہی کم ہے۔
پاکستانی اقتدار اعلی کے لئے اب طالبان بہت سنگین چنوتی بن گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ پاک فوج بھی اس سے مقابلہ کرنے میں اب اہل نہیں ہے۔بڑے پیمانے پر پاکستانی فوجی طالبان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں جن میں ایک جنرل کے عہدے کا افسر بھی شامل ہے۔ دراصل پاکستان نے جو گرہ یدھ کے حالات بن رہے ہیں اس کے لئے آئی ایس آئی اور امریکہ دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ آئی ایس آئی نے ان آتنکیوں کو پہلے سوویت سنگھ سے لڑنے کے لئے تیار کیا پھر بھارت کے خلاف ان کا استعمال کیا اورآج بوتل سے جن نکل چکا ہے اور سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے بیتاب ہورہا ہے ۔ امریکہ 13 سالوں میں طالبان کو کمزور نہیں کرپایا اب وہ افغانستان سے پنڈ چھڑاکر نکلنے کے لئے انہیں طالبانیوں سے سمجھوتہ کرنے میں جٹا ہے۔ بھارت کو بیحد محتاط رہنا ہوگا کیونکہ دونوں دیشوں کی سرکار سے ناخوش لوگ ایسے واقعات کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے جماعت الدعوی کے سپریمو حافظ سعید نے کراچی ہوائی اڈے پر حملے کے لئے سیدھے مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ پاکستان کی حالت اور بگڑنے کا امکان ہے کیونکہ امریکہ اسی سال افغانستان سے بھاگنے کی تیاری کررہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟