کیا ہند۔ چین کے درمیان نیا باب لکھا جائے گا؟

نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے دو ہفتوں کے اندر چین کے وزیر خارجہ وانگ چی کا دورہ ہند اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوال ہے۔ کیا وانگ بھی نئی حکومت سے محض رابطہ قائم کرنے کی خانہ پوری کرنے کے لئے آئے تھے یا یہ ٹٹولنے آئے کہ نریندر مودی کی حکومت کا چین کے تئیں کیا موقف ہے؟ ہندوستان پہنچنے سے پہلے ایک ملاقات میں وانگ نے مودی کو چین کا دوست بتاتے ہوئے اس دورہ کا خاکہ بھی رکھ دیا اور کہا تھا کہ بھارت اور چین میں کافی یکسانیت ہے۔ چین بھارت کی ترقی کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس میں تعاون دینے کے لئے بے قرار ہے۔ چین بھارت کی نئی سرکار کے ساتھ کام کرنے کیلئے اتاولا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے فون پر بات چیت کی۔ چین نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اس کا خیر مقدم ہے لیکن ہندوستان چین پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ پچھلے 10 سال میں ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کے زمانے میں چین کی فوج جب چاہے سرحد پار کر ہمارے علاقے میں کیمپ لگا کر بیٹھ جاتی تھی یا سرحد پر بن رہی ہماری سڑکوں تک کا بننابند کرادیتی تھی۔ جموں و کشمیر یا اروناچل کے لوگوں کو اپنے یہاں آنے کی اجازت ایسے شرائط پر دیتی تھی جو کہ بھارت کی سرداری پر سیدھا حملہ رہتا تھا۔ تعلقات بہتر بنانے کے لالچ میں چین کو ہم نے سب سے تجارتی سانجھیداری دی لیکن وہاں بھی اس کی منمانی جاری رہی۔ قریب40 ارب ڈالر کا سالانہ کاروبار خسارہ ہم ایسی ہی مجبوری جھیل رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں چین ساگر کے ویتنام والے حصے میں جب ہم نے تیل اور گیس کی تفتیش شروع کی تو چین کے جنگی جہازوں نے ہمیں وہاں سے نکالے جانے کی سیدھی دھمکی دے ڈالی۔ چناؤ کے دوران ایک ریلی میں نریندر مودی نے چین کو دبنگی سے باز رہنے کی وارننگ دے دی تھی۔ اس پر چین نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے کسی دیش کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ کرنے کے لئے کبھی اپنی طرف سے نہیں اکسایا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر پرنب مکھرجی سے بات کرنے کے بعد کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان لمبی سرحد ہے جو مقرر نہیں ہے اس لئے وہاں پر اکثر وارداتیں ہوجاتی ہیں لیکن اس کا حل امن اور بات چیت سے ہی ہونا چاہئے۔ہماری کوشش ہوگی اس کا اثر ہمارے باہمی رشتوں پر نہ پڑے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سیاحوں کی آمدورفت بڑھانے کے لئے ویزا قاعدوں کو اور آسان بنانے پر بھی جلد ہی ایک نیا ویزا سمجھوتہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ سرحدی مسئلے کے حل کے لئے تیار ہیں لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک بھارت اور چین سرحد پر امن اور استحکام بنائے رکھنے کے لئے عہد بند ہیں۔ بھارت کے ساتھ فوجی سانجھیداری کے رشتے کو مضبوط کرنے پر زور دیتے ہوئے چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ بھارت کی ترقی میں ہر طرح کا تعاون اور حمایت دینے کو تیار ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان اروناچل ہمیشہ تنازعے کا اشو رہا ہے۔ چین اروناچل پر اپنا حق جماتا ہے اور اس تنازعہ کے بارے میں وانگ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا حالانکہ اروناچل کولیکر کنٹروورسی ہے لیکن ہم نے وہاں کے لوگوں کو اسپیشل ویزا اس لئے دینے کی پالیسی اپنائی ہے کہ انہیں چین جانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ چین کی اس پالیسی سے اس علاقے کی سرداری کو لیکر مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا۔ ہم اس اشو پر بات چیت کے لئے تیار ہیں ایک چین کی روایتی پالیسی کوقبول کئے بغیر نریندر مودی اس بگڑیل پڑوسی کو دیش کی طرف سے دو ٹوک پیغام دینے میں کامیاب رہے۔ اروناچل پر حق جتاکر بھارت کو مسلسل اکسانے والی حرکتوں کا جواب مودی نے بھی اسی انداز میں دے دیا۔ اروناچل کے نوجوان ایم پی کرن ریشیجو کو وزیرمملکت داخلہ کی کرسی پر بٹھا دیا گیااور سابق فوج کے سربراہ وی کے سنگھ کو نارتھ ایسٹ ریاستوں کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ آنے والے مہینوں میں چین کے صدر ہوجنتاؤ بھارت آرہے ہیں تو ہمیں جہاں ان کا تہہ دل سے خیر مقدم کرنا چاہئے وہیں یہ بھی پوچھا جائے کہ پا ک کے قبضے والے کشمیر میں جس تیزی سے وہ اپنی فوج گھسا رہے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ ہزاروں مربع میل کا ہندوستانی علاقہ چین نے دبا رکھا ہے اس کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ چین کے نئے رویئے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ دونوں دیشوں کے تعلقات بہتر ہوں گی لیکن ہمیں چین کے قول اور فعل پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی۔ چین پر پوری طرح سے بھروسہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟