اس بار لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نہیں!

وزیر اعظم کے بھاشن کے بعد ہی سنسد کے پہلے اجلاس کا خاتمہ ہوگیا لیکن ابھی تک اپوزیشن لیڈر کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ چناؤ میں کراری ہار جھیلنے والی کانگریس کو اپوزیشن لیڈرکے پد کی کرسی مل بھی پائے گی یا نہیں۔ اس کو لیکر برسراقتدار بھاجپا کے اعلی لیڈران میں بھی تذبذب کی حالت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پردھان منتری نریندر مودی شروعاتی دور میں ہی اپوزیشن کے ساتھ اچھے رشتے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے سوال پر ان کا رخ بھی صاف نہیں ہوپایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 16 ویں لوک سبھا میں کانگریس کے پاس لوک سبھا کی اتنی بھی سیٹیں نہیں آئی ہیں کہ وہ قانونی طور سے اس کرسی کے لئے اپنا دعوی ٹھوک سکے کیونکہ اپوزیشن لیڈر کیلئے بھی ایوان میں اس کے پاس کم سے کم 54 ممبر ہونے چاہئیں لیکن اس بار پارٹی کو کل 44 سیٹیں ہی مل سکی ہیں۔ یہ ضرورت ہے کہ اتنی کم سیٹوں کے بعد بھی کانگریس کی حیثیت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی ہے۔ لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کو ہی اپوزیشن لیڈر کا پد ملتا ہے۔ یہ پد کیبنٹ رینک کا ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کئی آئینی پوسٹ پر تقرریوں میں اپوزیشن لیڈر کی اہم حصہ داری رہتی ہے اس لئے کانگریس رہنما اس پوسٹ کو لینے کے لئے بے چین ہیں۔ گذشتہ دنوں سابق مرکزی وزیرویرپا موئلی بھی کہہ چکے ہیں کہ کانگریس کے پاس اس پوسٹ کی دعویداری کے لئے پورا اعدادو شمار نہیں ہے۔ پھر بھی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے ناطے کانگریس کا ہی اس پوسٹ پر حق بنتا ہے۔ یہ فیصلہ اسپیکر کی صوابدید پر ہے۔ اس معاملے میں کانگریس چیف سونیا گاندھی نے لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کو ایک خط بھیجا ہے۔ خط میں سونیا نے لوک تانترک رواداری کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی پوسٹ کانگریس کوملنا چاہئے۔قابل ذکر ہے کہ کانگریس نے لوک سبھا میں اپنی پارٹی کالیڈر دل نیتا ملک ارجن کھڑگے کو بنایا ہے۔بھاجپا ذرائع کے مطابق سنسد سیشن کے دوران جس طرح سے راشٹرپتی کی تقریر پر چرچا کے دوران کانگریس کے نیتا کھڑگے نے مودی سرکار کے تئیں تیکھے تیور دکھائے ہیں ایسے میں بھاجپا لیڈر شپ اس مدعے پر کانگریس کے لئے کوئی کرپا دکھانے کے موڈ میں نہیں لگتی۔ یہ کوشش بھی چل رہی ہے کہ ترنمول کانگریس اور انا درمکھ کا ایک گٹھ بندھن ہوجائے تو ان دونوں دلوں کی مشترکہ طاقت لوک سبھا میں کانگریس سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انا درمکھ کے 37 اور ترنمول کے34 سانسد ہیں۔ کوشش یہ ہورہی ہے کہ اگر ممتا اور جے للتا میں تال میل بن جائے تو انا درمکھ کے ہی نیتا کو اپوزیشن لیڈر کی پوسٹ دی جاسکتی ہے۔حالانکہ ان دونوں ہی پارٹیوں کی مکھیا پارٹی میں اپنے سوائے کسی اور کو اس اہم پوسٹ پر بٹھانے سے بچ رہی ہے۔ اگر 37 سانسدوں والی انا درمکھ اور34 سانسدوں والی ترنمول کی سانجھہ دعویداری نہیں ہوتی ہے تو برسر اقتدار خیمہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو یہ پد دینے پر غور کرسکتا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ اس معاملے میں ابھی تک پردھان منتری نریندر مودی کچھ طے نہیں کرپائے ہیں اس لئے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اب سونیا گاندھی نے خط لکھ کر پہل کردی ہے۔ ایسے میں امکان ہے کہ اس مدعے پر جلد ہی فیصلہ ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟