ایک طرف سورج کی مار تو دوسری طرف بجلی کٹوتی!

پورے شمالی ہند میں پچھلے کئی دنوں سے قہر کی گرمی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں گرمی سے ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سورج تپنا شروع کردیتا ہے۔ دن چڑھتے چڑھتے اتنی تپش ہوجاتی ہے کہ سہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے غروب ہونے کے گھنٹوں بعد تک بھی گرمی کی تپش کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ اور آگ اگلتی سورج کی کرنیں اور گرمی سے پریشان لوگ ایتوار کے دن راجدھانی میں کچھ ایسا ہی محسوس کرنے کو اور دیکھنے کو ملا جب درجہ حرارت نے پچھلے62 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے شہر کے پالم علاقے میں درجہ حرارت47.8 ڈگری سیلسیس تک ریکارڈ کیا گیا۔ تیز دھوپ اور لو کے تھپیڑوں سے گر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے سڑکوں پرعام زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔ کپڑوں سے سر ڈھکے لوگوں کا سڑک پر چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مانا جاسکتا ہے گرمی کا موسم عام آدمی کے لئے زندگی محال کر دیتا ہے لیکن آبادی کے بڑھتے دباؤ اور ماحول میں گرمی پیدا کرنے والے انسانی سازو سامان کی وجہ سے سال در سال حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ گرمی سے بچاؤ کے وسائل پنکھا، کولر، ایئر کنڈیشن،فرج وغیرہ بجلی کی قلت کے سبب یہ سب بے معنی ہوتے جارہے ہیں۔چڑھتی گرمی کے درمیان بجلی کی کٹوتی نے دہلی کے شہریوں کا دن اور رات کی نیند اڑادی ہے۔ پچھلے10 دنوں سے چل رہا بجلی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں دو سے چھ گھنٹوں تک بجلی کی کٹوتی ہوتی ہے۔ کہیں لوڈ شیڈنگ تو کہیں بجلی سازو سامان میں آرہی تکنیکی خرابی سے بجلی چلے جانے سے لوگوں کا جینا حرام ہورہا ہے۔ بجلی کی مانگ کے لئے لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں، دھرنے دئے جارہے ہیں وہیں بجلی تقسیم کمپنیوں کا کہنا ہے پچھلے جمعہ کو آئی آندھری طوفان میں ٹرانسمیشن لائنوں اور ٹاور گرنے سے ڈسکام نیٹورکنگ سسٹم پر اثر پڑا ہے اور بجلی کی قلت سے دوچار دہلی کے لوگوں کو راحت دینے کے لئے دہلی کے تمام کاروباری مالس میں رات 10 بجے کے بعد بجلی سپلائی بند کردی جائے گی۔اس کے ساتھ ہی سرکاری دفاتر میں روزانہ ایک گھنٹے ایئر کنڈیشنر بند رکھے جائیں گے۔ دہلی دیش کا دل ہے اس لئے اس کے دل سے نکلی آواز دیش کے باقی حصوں کے لئے بھی ایک رہنما ہونی چاہئے۔ تمام ریاستوں کو اسی طرز پر بجلی کی فضول خرچی پرلگام لگانی ہوگی۔ بجلی بچانے کے اقدامات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ یہ کام کسی خاص موسم یا موقعہ پر نہیں بلکہ پورے سال کرنے ہوں گے تاکہ گرمی کے موسم میں بجلی اور پانی کی ضرورت کے حساب سے سپلائی ہوسکے۔گرمی میں آگ برساتے سورج پر تو انسان کا بس نہیں ہے لیکن جو قدم اس نے ان آفات سے نمٹنے کیلئے اپنے دم پر بنائے ہیں ان کا متوازن استعمال کہیں نہ کہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ماہرین اکثر دلیل دیتے ہیں کہ موسم کا اثر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بدل رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے شہر سیمنٹ کے ہوچکے ہیں ،پیڑ کٹتے جارہے ہیں اس سے گرمی بڑھ رہی ہے لیکن 65 سال پہلے نہ تو کوئی گلوبل وارمنگ تھی اور نہ ہی پکے شہر بسے ہوئے تھے اور نہ ہی آبادی اتنی تھی تو پھر کیا وجہ تھی کہ 1952ء میں تقریباً اتنی ہی گرمی پڑی تھی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟