مودی کے دورہ امریکہ سے دونوں ملکوں کے رشتے بہتر ہوں گے

کہاوت ہے کہ دنیا جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے نریندر مودی کو اپنی سرزمین پر پاؤں رکھنے کی اجازت تک نہ دینے والا امریکہ اب انہیں لال قالین پر بیٹھانے کی تیاری کررہا ہے۔ صدر براک اوبامہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ستمبر آخری ہفتے میں امریکہ جانے کا اراداہ کرلیا ہے۔ انہیں دنوں میں اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میں ہونا ہے امکان ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی بھی اس موقعے پر موجود رہیں گے اس سالانہ اجلاس کے دوران امریکہ میں تمام غیرملکی سینئر لیڈروں کی بھیڑ ہوتی ہے اور تنازعوں سے بچنے کے لئے امریکی صدر عام طور پر کسی سے ا لگ سے ملنا پسند نہیں کرتے لیکن مودی کے معاملے میں یہ روایت توڑتے دکھائی دے رہے ہیں یہ وہی امریکہ ہے جس نے پچھلے کئی برسوں سے تک مودی کو ویزا تک دینے سے انکار کیا اور بار بار بے عزت کیا۔ اب اگر اوبامہ پلٹی کھار ہے ہیں تو اس میں امریکہ کا مفاد زیادہ ہے معاملہ سیدھے امریکی اقتصادی اور فوجی مفادات سے وابستہ ہے ہندوستان کا خوردہ بازار ، ڈیفنس سودوں اور ایٹمی بھٹیوں کا معاملہ امریکہ کو بے چین کررہا ہے پچھلے کچھ مہینوں میں امریکہ اور بھارت کے رشتوں میں گراوٹ آئی ہے۔ اور یہ کہہ کشیدگی کے حالات بنے ہوئے ہیں غلط نہیں ہوگا۔ اور کچھ وقت سے پہلے امریکہ میں تعینات ہماری سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے کے ساتھ جو برتاؤ کیاتھا اس سے دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی بڑھ گئی تھی ہندوستانیوں کے لئے ایم ون ویزا کے معاملے میں امریکہ کاامتیاز صاف دکھائی دے رہا تھا وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار عہدے سنبھالنے کے بعد تعمیراتی سیکٹر میں سرگرم امریکہ کی طاقت ور لابی نے ہندوستان مخالف رویہ میں تبدیلی کرلی اور اس دباؤ گروپ کو امید ہے کہ وزیراعظم مودی کے عہد میں بھارت اورامریکہ کے درمیان کاروباری رشتے نہ مضبوط ہوں گے بلکہ اقتصادی و اصلاحات میں نیا سدھار ہوگا۔ امریکہ کی تجاری انجمن کے چیرمین اور سی او جیم ٹیمس کاکہنا ہے کہ امریکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کو امید ہے کہ بھارت امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات پٹری پر واپس آجائیں گے۔اچھے چل رہے رشتوں میں دیویانی کے تنازعے نے کافی تلخی بڑھا دی تھی ایسے میں مودی کے اقتدار میں آنا دونوں ملکوں کے ڈپلومیٹک حکام کی نیند اڑانے کے لئے کافی تھا لیکن فریقین نے بربادی دکھائی اور آپسی رشتوں کو نئی بلندی دینا ضروری سمجھا۔ دونوں ملکوں کے مفادات کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ بھارت امریکہ پرانی باتوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ نریندر مودی جب امریکہ جائے اور اوبامہ سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے بارے میں تبادلہ خیال کریں اور امریکہ کی نئی انترم سفیرکیتھرین اسٹیفینس نئی دہلی آکر اپناعہدہ سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے پچھلی سفیر نینیسی پاول کی جگہ ذمے داری سنبھالی ہے جو 22 مئی کو بھارت چھوڑ گئی ہے۔ نئی سفیر نے ہندوستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں کامیاب تبدیلی اور انسداد دہشت گردی کے اقدام پر غور اور فروغ قانون میں تبدیلی اور لوگوں کے آپسی رشتوں کو بہتر بنانے پر بھی کام کرنے کی بات کہی ہے جس کاہم خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں مودی اور اوبامہ دونوں میں ملکوں میں بھائی چارتی اورہر ممکن سیکٹر میں آپسی اشتراک بڑھائیں گے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟