امیٹھی میں بیٹا، بہو اور وشواس میں جنگ!

دیش کی ہائی پروفائل سیٹوں میں سے ایک امیٹھی کی سیٹ ہے۔80 کی دہائی میں کانگریس نیتا سنجے گاندھی کے آنے کے بعد سے کچھ ایک موقعوں کو چھوڑدیا جائے تو امیٹھی پارلیمانی علاقہ نہرو۔ گاندھی پریوار کا گڑھ رہا ہے۔گاندھی پریوار نے ہمیشہ سیدھی لڑائی میں یہاں بڑی جیت درج کی ہے۔اپوزیشن پارٹی کے امیدوار کبھی بھی گاندھی پریوار کو یہاں سے چنوتی نہیں دے پائے۔امیٹھی کے کل12 چناؤ (دو ضمنی انتخابات سمیت) میں 9 بار نہرو ۔گاندھی پریوار کے امیدوار رہے جبکہ تین بار پریوار کے قریبی کیپٹن ستیش شرما میدان میں اترے۔ امیٹھی سے راہل گاندھی بہت مضبوط امیدوار ہیں۔ کانگریس نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کانگریس کے پی ایم امیدوار بھی ہیں۔ کانگریس کا بہت حد تک دارومدار راہل گاندھی پر منحصر ہے۔اس بار امیٹھی کا رن گاندھی پریوار کے بیٹے راہل ، ٹی وی سیریل کی بہواسمرتی ایرانی اور عام آدمی پارٹی کے کمار وشواس کے ساتھ ہی بسپا کے بیچ ہونا طے سا لگتا ہے اگر امیٹھی کی راہل گاندھی کے کام اور پریوار سے ہے تو بھاجپا کی اسمرتی ایرانی بھی ساس بھی کبھی بہو تھی کی تلسی کے روپ میں گھر گھر پہچان رکھتی ہیں۔ وشواس کی کویتاؤں سے بھی لوگ واقف ہیں۔ تلسی کے آنے سے امیٹھی میں بھاجپا میں ایک نیا جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسمرتی کو نریندر مودی کا خاص مانا جاتا ہے۔ انہیں امیٹھی بھیج کر مودی کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ دیش بھر میں راہل کو للکارتے مودی کے سامنے اب انہی کے گھر میں اپنی طاقت دکھانے کی چنوتی بڑھ گئی ہے۔ بھاجپا نے بیشک امیٹھی سے اسمرتی کو اتارا ہو لیکن اس کے لئے کوئی زمینی تیاری نہیں کی ہے۔ دیش کے سب سے طاقتور خاندان کے مقابلے کے لئے گمبھیر چنوتی پیش کرنے کی پارٹی نے اب تک کسی چناؤ میں صحیح معنوں میں کوشش نہیں کی ہے نتیجے سامنے ہیں۔سنگٹھن بکھرا ہوا ہے۔ چناؤ در چناؤ کی ناکامیوں نے کاریکرتاؤں کا منوبل توڑدیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کمار وشواس گھٹیا لوک پریتا حاصل کرنے کے لئے اشلیل باتوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ سنئے کیا کہتے ہیں۔گاؤں تک سندیش پہنچ گیا ہے۔اب چاہے ایرانی آئے، پاکستانی آئے یا ایٹالین یا امریکہ راہل پہلے سے ہی ایک ایکٹر ہیں اور ایک اور ایکٹریس لڑنے کے لئے آگئی ہے۔ لیکن امیٹھی نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے۔ بھاجپا اورکانگریس کے درمیان بنارس اور امیٹھی سیٹوں پر کوئی سہمتی بنی ہے۔اسمرتی نے جواب میں کہا ’آپ‘ اور کانگریس کے درمیان کی سہمتی تو جگ ظاہر ہے اور دہلی میں جب انہوں نے سرکار بنائی تو سب لوگوں نے دیکھ لیا تھا۔ جہاں تک وشواس کی بات ہے مجھے ان سے رتی بھر بھی سنمان ملنے کی امید نہیں ہے۔مہلاؤں کے تئیں سنمان نہ دکھانے کا ان کا اتہاس رہا ہے۔ وشواس 12 جنوری سے ہی امیٹھی میں ڈیرا جمائے ہیں۔ وشواس گاندھی پریوار کے ونشواد کے خلاف چناؤ پرچار میں جٹے ہیں۔ اس بیچ ان کے خلاف آدھا درجن سے زیادہ مقدمے بھی قائم ہوچکے ہیں۔اسمرتی کے نام پر وہ کہتے ہیں کہ امیٹھی میں ٹی وی کلاکار کا جادو نہیں چلے گا اور وہ صرف یہاں چناؤ ہارنے آئی ہیں۔ بسپا نے یہاں سورن امیدوار ڈی پی سنگھ کو کھڑا کیا ہے۔یہ محض ایک اوپچارکتا ہے۔سپا نے راہل کے خلاف کوئی امید وار ہی نہیں کھڑا کیا۔ راہل گاندھی اپنے چناؤ پرچار میں امیٹھی کو اپنا گھر بتا رہے ہیں جس سے ان کا خاندانی رشتہ ہے سالوں پرانا۔ یہاں سے ان کے چاچا سنجے گاندھی، پتا راجیو گاندھی، ماتا سونیا گاندھی سانسد رہ چکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امیٹھی کی جنتا سانسد نہیں چنتی دیش کا ایک پردھان منتری چنتی ہے۔ اس لوک سبھا چناؤ میں نریندرمودی کا کافی شور ہے۔ بھاجپا اس لہر پر سوار ہوکر اقتدار میں آنے کا سپنا سجائے ہے۔اتر پردیش میں واپسی کے لئے وہ پوری طرح سے مودی لہر کے بھروسے ہے۔ امیٹھی میں اس کا بڑا امتحان ہوگا۔ 2014 ء کا چناؤ مودی بنام راہل بن چکا ہے۔ اس چناؤ میں بیشک کانگریس کے خلاف ماحول ہے اور یہ کسی بھی کانگریسی امیدوار پر بھاری پڑ سکتا ہو پر امیٹھی میں ہماری رائے میں راہل سرکشت مانے جارہے ہیں تو اس کی واجب وجوہات بھی ہیں۔ ان کے بڑے قد سے ان کے علاقے کو بڑی امیدیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!