کیا چناؤ ووٹ فار چینج ہوگا: کم سے کم دہلی سے توایسا لگتا ہے!

دہلی میں لوک سبھا سیٹوں پر جمعرات کو ہوئی پولنگ کے لئے صبح سے ہی ووٹروں میں زبردست جوش نظر آیا۔عالم یہ تھا کہ بہت سے پولنگ مرکزوں پر صبح سے ہی ووٹر پہنچ گئے تھے جن میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ پچھلے2009 کے لوک سبھا چناؤ میں پولنگ52 فیصدی ہوئی تھی اور کانگریس ساتوں سیٹوں پر کامیاب رہی تھی اور بھاجپا ہار گئی تھی لیکن 2013 کے اسمبلی چناؤ میں پولنگ65فیصدی ہونے پر کانگریس دوڑ سے باہر ہوکر 70 میں سے8 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ اس کے چلتے بڑھی پولنگ فیصد کو لیکر 2014 لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا بہت خوش ہے۔دہلی میں 64 فیصدی پولنگ ہوئی ہے۔ دہلی کے سٹہ بازار میں 6 سیٹوں پر بی جے پی امیدوار کے حمایتی مانے جارہے ہیں۔ سٹے کے ریٹ میں محض نئی دہلی سیٹ پر کانگریس کے اجے ماکن ، بی جے پی کی امیدوار میناکشی لیکھی سے آگے ہیں ۔ دراصل اجے ماکن نہ صرف ایک مضبوط امیدوار ہیں بلکہ انہوں نے علاقے میں کام بھی کیا ہے اور اپنے وٹروں سے جڑے رہے ہیں۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آیا بی جے پی نے نئی دہلی جیسی وقاری سیٹ جس پر اٹل جی لڑا کرتے تھے اور اس کے بعد اڈوانی جی لڑے اس وجہ سے یہ دیش کی اہم سیٹ مانی جاتی ہے ، اس پر میناکشی لیکھی کو کیوں امیدوار بنایا؟ یہاں سے سشما سوراج یا ارون جیٹلی جیسے بڑے لیڈر کو اتارنا چاہئے تھے۔ اب تو اس سیٹ پر میناکشی کو مودی لہر کا سہارا ہے۔ اگر وہ کامیاب ہوتی ہیں تو مودی لہر کی وجہ سے ہی ہوں گی۔ چاندنی چوک سیٹ پر مرکزی وزیر کپل سبل، ڈاکٹر ہرش وردھن،صحافی سے لیڈر بنے آشوتوش کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔ بیشک کپل سبل نہ صرف ایک قابل امیدوار ہیں بلکہ انہوں نے اپنے حلقے میں کام بھی کیا ہے اور ووٹروں سے جڑے رہے ہیں لیکن ناراضگی کے فیکٹر کی کاٹ کرنا ان کے لئے مشکل لگ رہا ہے۔جس کانگریس ووٹ پر شاہی امام کے فتوی شعیب اقبال کی حمایت کے اعلان پر سبل صاحب امید لگائے بیٹھے تھے وہ شاید انہیں پولنگ کے دن نہیں دکھائی دی۔ چاندنی چوک میں اقلیتی ووٹروں نے لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار آشوتوش کو ووٹ دیا ہے اس کی وجہصاف ہے انہیں لگا کہ کپل سبل اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ نریندر مودی اور بھاجپا کے بڑھتے قدموں کو روک سکیں اس لئے ایسے امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دیں جو یہ کام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے ماننا پڑے گا اروند کیجریوال ایک بڑے شاطر سیاستداں اور پلانر ہیں یا جو بھی ان کے لئے حکمت عملی بناتا ہے وہ بہت ہی چالاک ہے۔ کیجریوال نے مودی کو نشانہ بنایا وہ وارانسی سے اس لئے چناؤ لڑنے گئے تاکہ دیش میں یہ پیغام جائے صرف وہ ایک اکیلے ایسے شخص ہیں جو مودی کو روک سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دہلی کے زیادہ تر اقلیتوں نے ان کی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو دہلی میں مقابلہ بھاجپا بنام آپ پارٹی ہوجائے گا اور کانگریس تیسرے نمبر پر چلی جائے گی۔ یہاں کیونکہ ہم چاندنی چوک پارلیمانی سیٹ کی بات کررہے ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ بھاجپا نے ڈاکٹر ہرش وردھن کو یہاں سے کیوں لڑوایا؟ اول تو اگر انہیں لوک سبھا کا چناؤ لڑوانا ہی تھا تو مشرقی دہلی سے لڑواتے جہاں سے وہ اسمبلی چناؤ جیتے تھے اور وہ ان کا اپنا حلقہ بھی ہے۔ ویسے تو دہلی اسمبلی چناؤ پھر سے ہونے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو ان کے لئے رکھنا چاہئے تھا۔ اب اگر کسی بھی وجہ سے بی جے پی کی چال چاندنی چوک میں کامیاب نہیں ہوتی اور چناؤ نتیجہ برعکس آتا ہے تو ڈاکٹر ہرش وردھن کہاں کے رہیں گے؟ لوک سبھا کی91 ویں سیٹوں پر ہوئے تیسرے مرحلے کی پولنگ کے بعد حکمراں کانگریس کو جو اندرونی رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق دہلی سے کانگریس پارٹی کا پتا صاف ہونے کا پورا امکان ہے جبکہ دہلی سے لگے ہریانہ میں اسے تین اور یوپی بہار میں ایک ایک سیٹ ملنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ دہلی کی سبھی ساتوں سیٹوں میں سے کانگریس شام سے پہلے تک صرف نئی دہلی اور چاندنی چوک سیٹ پر مقابلے میں رہی لیکن پولنگ پوری ہوتے ہوتے دونوں سیٹیں بھی کانگریس کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ باقی بچی پانچ سیٹوں پر کانگریس مقابلے میں نہیں ہے۔ یہاں بھاجپا کا مقابلہ عام آدمی پارٹی سے ہورہا ہے۔ دہلی سے جڑے کانگریس کے ایک بڑے نیتا کے مطابق دہلی میں بھاجپا سبھی سیٹوں پر جیت جائے تو تعجب نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں نے بھاجپا کے امیدوار کے نام پر نہیں بلکہ نریندر مودی کے نام پر بھاری پولنگ کی ہے۔ پارٹی کا یہ بھی اندازہ ہے عام آدمی پارٹی بھی ایک دو سیٹ نکال سکتی ہے۔ دہلی لوک سبھا چناؤ میں مسلم طبقہ اس بار پوری طرح چپ رہا۔ پرانی دہلی کے مسلم ووٹروں کا رجحان عام آدمی پارٹی پر اور دوسرا رجحان کانگریس پر تھا۔ کچھ دن پہلے جامع مسجد کے شاہی امام اور ممبر اسمبلی شعیب اقبال کے اعلان سے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کے وہ کام نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا سب کانظریہ الگ ہوتا ہے دونوں نے اپنے فائدے کے لئے ہم کو کٹھ پتلی کی طرح نچانے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کانگریس نے آزادی کے بعد سے جو راج کیا اس میں لوگوں کی زندگی میں تو تبدیلی آئی مگر کرپشن اور مہنگائی اس بار بڑھی تھی۔ ہمارا کانگریس سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔پہاڑ والی گلی کی باشندہ ایک عورت حنا نے بتایا کہ اس نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیا ’آپ‘ پارٹی کے آشوتوش کو ووٹ دیا ہے کیونکہ وہ ایماندار ہے اور ان کو ایک بار موقعہ ملنا چاہئے۔ اسمبلی میں ان کی پارٹی کا کام ملا جلا رہا۔ اگر کیجریوال اقتدار چھوڑ کر نہیں جاتے تو لوک سبھا چناؤ میں ان کی پارٹی کو 3 سیٹیں ملنی پکی تھیں۔ ان کواس کا ہرجانہ لوک سبھا چناؤ میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔ ایک اور خاتون زرینہ خاں نے بتایا کہ انہوں نے نوٹا بٹن دبانا ہے وہ مودی کو ووٹ دینا چاہتی تھیں مگر اس بار بھاجپا نے خود نہیں مودی کو سامنے رکھ کر چناؤ لڑا ہے جس طرح سے ان کی تقریریں چناؤ منشور میں مسلم طبقے کو لیکر وعدے کئے ہیں دیکھنا ہوگا کہ کب تک وہ پورا کرتے ہیں۔ ووٹ فیصد سے حوصلہ پائی بھاجپا کا کہنا ہے نوجوان طبقے نے بڑھ چڑھ کر اس پولنگ میں حصہ لیا پہلی بار ووٹ ڈالنے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’’ووٹ فار چینج‘‘ کو اپنی رائے دی ہے۔ صاف ہے کہ چناؤ میں سب سے بڑا اشو نریندر مودی ہیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے چناؤ مودی بنام باقی امیدوار ہوا ہے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!