کانگریس کو بھروسہ ہے سونیا اس مرتبہ بھی پارٹی کو بچا لیں گی!

پچھلے ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے کانگریس صدر سونیاگاندھی نے اچھا وقت بھی دیکھا ہے اور خراب بھی لیکن خراب وقت میں ورکروں کا حوصلہ نہ ٹوٹنے دینے اور برے دور سے پارٹی کو نکالنے میں ان کی مہارت پر کانگریس میں کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے۔لیکن اس مرتبہ سونیا گاندھی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ کانگریس میں جس طرح کی مایوسی کا ماحول اس وقت ہے ایسا پہلے شاید کبھی رہا ہو۔ چناوی سروے 16 ویں لوک سبھا میں کانگریس کو اس کی پارلیمانی تاریخ کی اب تک کی سب سے کم سیٹیں ملنے کی قیاس آرائی کررہے ہیں۔ راہل گاندھی کو پارٹی کا نائب پردھان بنانے کے بعد سے سونیا گاندھی نے خود کو زیادہ وقت تک پردے کے پیچھے سے اپنا رول نبھانے تک محدود رکھا ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ فیصلے کرنے کی آزادی بھی دے دی ہے لیکن ساتھ ہی ان پر آنچ نہ آئے اس کے لئے وہ کافی چوکس ہیں۔ ممبئی کی آدرش سوسائٹی میں سابق وزیر اعلی اشوک چوہان کو بچانے کی کوششوں کی تنقید کے باوجود انہیں لوک سبھا کا ٹکٹ دئے جانے کے لئے جب راہل سے سوال پوچھے جانے لگے تو وہ ذمہ داری لینے کے لئے سامنے آئیں۔ لوک سبھا چناؤ میں پارٹی کے کمزور امکانات کو دیکھتے ہوئے سونیا گاندھی نے اب اپنی مصروفیت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن کیا ’اٹ از ٹو لیٹ‘؟ یعنی کیا بہت دیر ہو چکی ہے؟ لوک سبھا چناؤ کے نتائج سے پہلے ہی کانگریس کو اپنی شکست کی آہٹ ملنے لگی ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر اور کانگریس کے چناوی انتظام دیکھ رہے جے رام رمیش نے ایک انٹرویو میں کہا چناوی ماحول کانگریس کے خلاف ہے ان کا کہنا ہے کانگریس حقیقی معنی میں لوک سبھا چناؤ ہار گئی ہے کیونکہ سینئر لیڈر شپ لوگوں سے بات چیت نہیں کرپائی۔ جے رام اپنی بیباکی کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ 10 سال اقتدار میں رہنے کے سبب اقتدار مخالف لہر کا مقابلہ پارٹی کررہی ہے وہ اس کے لئے سینئر لیڈر شپ پر نشانہ لگا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنتا سے رابطہ کٹ جانے کے سبب میڈیا زیادہ سرگرم عدلیہ اور کیگ جیسے سرکاری اداروں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کا سینئر لیڈر شپ جواب دینے میں نا کام رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی کانگریسی لیڈر آن دی ریکارڈ یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ اس بار کانگریس کو کڑی چنوتی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کانگریس کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کے کانگریس لیڈر ٹکٹ پا کر بھی پارٹی چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔پہلمنڈ سے بھاگیرت پرساد اور اب گوتم بودھ نگر سے رمیش چند تومر کا بھاگنا یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس کی حالت خستہ ہے۔ کانگریس پہلے کو یوپی اے کے کارناموں کو زور شور سے اٹھا رہی تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ پارٹی نے سیکولرزم کے اشو پر پولارائزیشن کو اپنی امیدوں کی بنیاد بنا لیا ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی کے لیڈر اب اپنی تقریر میں بھاجپا پی ایم امیدوار نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ادھر وزیر دفاع اے ۔کے انٹونی نے یہ بے لاگ بیان دیا کہ کانگریس سیکولر ازم کے سوال پر آگے آنے والی سبھی پارٹیوں سے ہاتھ ملانے کو تیار ہے۔ فی الحال بھلے ہی وہ کانگریس کے خلاف چناؤ لڑ رہی ہوں۔ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کے تجزیئے میں یہ تجربہ اہمیت کا حامل بنا رہے گا کے بھارت میں زیادہ تر موقعوں پر سیاسی لہر ملک گیر نہیں ہوتی لیکن سیاسی مبصرین کی سمجھ یہ ہے کہ قومی مینڈینٹ کا خاکہ ریاست میں ہونے والے مقابلوں سے ہوتا ہے جبکہ یہ مقابلے وہاں کے مقامی ،سماجی، سیاسی اور ذات پات کے تجزیوں سے طے ہوتے ہیں۔ایسے میں ممکن ہے کہ مرکز کی اگلی سرکار طے کرنے میں سب سے اہم کردار علاقائی پارٹیوں کا سامنے آئے۔ اگر کانگریس کا ابتدائی مقصد نریندر مودی اور بھاجپا کو روکنا ہے تو اس لحاظ سے ایسے حالات اس کے موافق بنے گے تب وہ سیکولر مورچے کو ساتھ لے کر یا اسے حمایت دے کر اپنا سیاسی مقصدحاصل کر سکے گی۔ عام قیاس آرائیوں کے باوجود شاید اسی امکان اور سونیا گاندھی کی پائیدار شخصیت نے کانگریس کی امیدوں کو زندہ رکھا ہے۔ پارٹی نے ممکنہ طور پر اپنا برہماستر چلا دیا ہے۔ سونیا گاندھی نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی بکھری ہوئی کانگریس پارٹی میں جس طرح سے جان پھونکی تھی آج ویسی ہی سیاسی حالت ہے۔ دیکھیں سونیا گاندھی کیا 2014ء میں ایسا کرپاتی ہیں یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟