آسام۔ کیرل و کرناٹک کا چناوی تجزیہ

آج کے اس مضمون میں بات کروں گا کچھ ریاستوں کی۔ آسام میں 16 ویں لوک سبھا چناؤ کے لئے ووٹنگ کی شروعات 7 اپریل کو ہوگئی ہے۔اتفاق ہے کہ ان چناؤ میں پہلا ووٹ وہیں پڑے گا جہاں دیش میں سب سے پہلے سورج نکلتا ہے یعنی نارتھ ایسٹ میں۔ جہاں آسام کی پانچ اور تریپورہ کی ایک سیٹ پر ووٹ پڑیں گے کل ملاکرپورے نارتھ ایسٹ میں لوک سبھا کی25 سیٹیں ہیں جس میں اکیلے آسام میں 14 سیٹیں آتی ہیں۔2009 ء میں کانگریس کو 7، بھاجپا۔ آسام گن پریشد گٹھ بندھن کو 5، بوڈو پیپلز فرنٹ کو1 اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو 1 سیٹ ملی تھی۔ سیون سسٹر کے نام سے جانے جانیوالی 7 ریاستوں سکم،اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور، تریپورہ، میزورم، میگھالیہ اور آسام کو جوڑ کر بننے والے اس علاقے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں سے لے دے کر 2000 کے لگ بھگ بولیاں اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کی گھس پیٹھ کا سوال یہاں اس بار بھی اہم مدعا بنا ہوا ہے۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے بھی ناجائز طور سے گھسے بنگلہ دیشیوں کے مدعے کو زور شور سے اٹھایا ہے۔ آسام میں کانگریس کی سرکار ہے اور ترن گگوئی مکھیہ منتری ہیں۔ کانگریس۔ بھاجپا اور مقامی پارٹیوں میں بڑا مقابلہ ہے۔ پچھلے سال آسام میں راج نیتک استھرتاکے سال بھی رہے ہیں جو کہ 2000 سے ہی ترن گگوئی کی کانگریس سرکار کا یہاں شاسن ہے۔ موجودہ چناؤ میں جہاں بھاجپا نریندر مودی کی مقبولیت کو بھنانے کی کوشش کررہی ہے وہیں کانگریس پچھلے دنوں سے اپنے کام اور مکھیہ منتری ترن گگوئی کی سرکار کے پردرشن پر داؤ کھیل رہے ہیں۔ آسام گن پریشد اس بار بھاجپا سے الگ چناؤ لڑ رہی ہے اور مقابلے میں پورا زور لگائے ہوئے ہے وہیں ان پرانے کھلاڑیوں کے مقابلے نئی پارٹیاں آئی یوڈی ایف اور ڈی پی ایف بھی میدان میں ہیں۔دیش کے اتر کے بھاگ سے آسام سے چلتے ہیں دکشنی بھاگ کیرل ۔ کیرل میں دو اہم مورچے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کے درمیان مقابلہ برابر کا نظر آرہا ہے۔اقلیتوں کے نام پر کئی چیتاونیوں کے باوجود حالت یو ڈی ایف کے لئے اچھی نظر آسکتی ہے۔ کیرل کے مسلمان نئی دہلی میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے امکان سے ہوشیار نظر آرہے ہیں۔ پرچار کے دوران جو مدعے سامنے آئے ہیں ان مدعوں سے ایل ڈی ایف کو کھویا جن آدھار پانے میں مدد ملی ہے اور وہ اپنے مقابلے کے مورچوں کو بڑی چنوتی دیتی نظر آرہی ہے۔قدرتی ہے کہ بھاجپا اور دوسرے چھوٹے دل اس چناؤ میں بھی ان دونوں مورچوں سے بہت پیچھے ہیں۔ کنڑ علاقے کرناٹک میں لوک سبھا کی 28 سیٹوں کے لئے اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار کانگریس ،جنتادل سیکولر میں تکونا دنگل ہے۔ راجیہ میں کہیں کہیں جنتادل (یو) کمیونسٹ مورچہ میدان میں ہے۔ پردیش کے 4.37 کروڑ ووٹروں میں ہندو 83.90فیصد ہیں، مسلم 12.20 فیصد،عیسائی 1.90فیصد، بودھ0.70 اور جین 0.8فیصدی ہیں۔ کرناٹک کی ذات پات اور مذہب کے تانے بانے میں لنگیات 12فیصد ،ووکلنگا11فیصد، پچھڑی منجھولی کسان جاتیاں39 فیصد، دلت16.2 ،ونواسی6.3 فیصد ہیں۔حالانکہ کرناٹک کی کل آبادی ووٹ بینک کے 47فیصد کا دعوی کیا گیا ہے۔15 ویں لوک سبھا یعنی2009ء کے چناؤ میں بھاجپا کو19، کانگریس کو6 اور جنتادل سیکولر کو3 سیٹیں ملیں تھیں۔2013ء چناؤ میں بھاجپا بنیادی طور پر مکھیہ منتری بدلنے اور وی ایس یدی یرپا کے بغاوت کی وجہ سے حال میں بھاجپا پی ایم امیدوار نریندر مودی کی رہنمائی میں دوبارہ پارٹی میں لوٹے ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس، بھاجپا و جنتادل میں اہم مقابلہ ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟