مظفر نگر کے دنگوں کی ٹیس کیا سیاسی گل کھلاتی ہے؟

گڑ اور شکر کی مٹھاس پروسنے والی مظفر نگر پارلیمانی سیٹ کی ستمبر2013ء میں ایکاایک بین الاقوامی فلک پر دنگا متاثر علاقے کی شکل میں پہچان بن گئی ہے۔کسان سیاست کا یہ اہم علاقہ فرقہ وارانہ بھائی چارے کے لئے مانا جاتا تھا پر ستمبر میں ایسے بھیانک فرقہ وارانہ دنگے ہوئے کے ان کی دہشت اور تناؤ کی وجہ سے 700 سے زیادہ خاندانوں کے لئے گاؤں کی مٹی بیگانی ہوگئی۔ اس پارلیمانی علاقے کے اہم شائے راہوں کی بری حالت دکھاتی ہے یہاں بربادی کی داستاں۔ اس بار سارے دیش کی نظر اس مظفر نگر پارلیمانی سیٹ پر ٹکی ہوئی ہے۔ چناؤ کے اس عظیم جنگ کے اکھاڑے میں بھاجپا، کانگریس، سپا اور بسپا کے امیدوار ووٹروں کا رخ اپنے حق میں کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ وہ ووٹروں کو علاقے کے پچھڑے پن کو دور کرنے کے سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ بھاجپا نے سنجیو بالیان کو امیدوار بنایا ہے ، بسپا نے2009ء میں ہاتھی پر سوار ہوکر سنسد میں پہنچے قادر رانا کو پھر موقعہ دیا ہے۔ کانگریس نے یہاں راشٹریہ لوکدل سے گٹھ بندھن کے بوتے پنکج اگروال پر داؤ لگایا ہے جبکہ سپا نے وریندر گوجر کو چناؤ اکھاڑے میں سائیکل کی سواری کا موقعہ دیا ہے۔ہربار امیدوار کے چناؤ اور ووٹوں کے پولارائزیشن میں جاتی سمی کرن حاوی ہونے کا احساس ہوا۔اس بار حالات بدلے ہونے کا احساس ہورہا ہے۔ ووٹر ستمبر میں ہوئے دنگوں کی ٹیس کا اظہار کرنے سے نہیں ہچک رہے ہیں۔ امیدوار اور ان کے سمرتھک بھی اسی ٹیس سے ووٹوں کا پولارائزیشن کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چوک رہے ہیں۔ کانگریس نے یہاں سے مظفر نگر سے نگر پالیکا کے چیئرمین نوجوان نیتا پنکج اگروال کو بیشک اتارا تو ہے پر پنکج کے چیئرمین بننے کے بعد لوک سبھا چناؤ لڑنے کا ان کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ پنکج نے نگر پالیکا کے علاوہ دیگر کوئی چناؤ نہیں لڑا ہے۔
کانگریس نے یہاں یووا کارڈ کھیلتے ہوئے ان پر بھروسہ جتایا ہے اور اس کے لئے انہوں نے پہلے سے اعلان شدہ امیدوار سورج سنگھ ورما کا ٹکٹ کاٹ کر انہیں دیا ہے۔ بھاجپا نے بھی یووا نیتا ڈاکٹر سنجیو والیان کو ٹکٹ دے کر یہاں پولارائزیشن کو آگے کر مظفر نگر کے دنگوں کے بعد ہوئے حالاتوں کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے کئی چناؤ میں بھاجپا یہاں سے ہارتی آئی ہے۔ بسپا نے یہاں موجودہ سانسد قادر رانا کو دوبارہ میدان میں اتارا ہے۔ پچھلی بار وہ بھاجپا آر ایل ڈی گٹھ بندھن کی امیدوار انورادھا چودھری کو چناؤ ہرا کر پہلی بار لوک سبھا میں پہنچے تھے۔ اس چناؤ میں رانا پریوار کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ قادر رانا کے بھائی نور سلیم رانا بھرکاول سے بسپا ودھایک ہیں۔ وہاں سے ان کے بھتیجے شاہنواز رانا بجنور سے سپا کے لوک سبھا امیدوار ہیں۔اس پارلیمانی علاقے میں 18 لاکھ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ لگ بھگ 32 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔دوسرے پائیدان پر مانے جانے والے جاٹ ووٹروں کا رجحان چناؤ سمی کرن میں الٹ پھیر کرنے کی حیثیت میں نہیں ہے۔ بسپا کا سمی کرن دلت ۔ مسلم پر ٹکا ہے وہیں سپا کے علمبردار مسلم ووٹروں کو سائیکل کی سواری کراکر چناؤ جیتنا چاہتے ہیں۔ بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کو جاٹ ،ویش، براہمن، تیاگی، ٹھاکر، سینی سمیت دیگر برادریوں کے لامبند ہونے کی آس لگی ہے۔ وہیں مسلم ووٹوں کے بٹوارے سے انہیں چناؤ میں سیاسی سنجیونی ملنے کی امید ہے مگر علاقے کے دنگے کیا سیاسی گل کھلاتے ہیں اس پر سبھی کی نگاہ ٹک رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟