اگر پرگیہ ٹھاکر کی موت ہوجاتی تو ذمہ دار کون ہوتا؟
بڑی دھوم دھام کے ساتھ یوپی اے نے دیش میں بڑے آتنکی حملوں کی جانچ کیلئے امریکہ کی ایف بی آئی کی طرز پر قومی ایجنسی این آئی اے بنائی۔ ایجنسی کی پانچ برانچیں ہیں ممبئی، حیدر آباد، لکھنؤ، کوچی اور گوہاٹی۔ ان میں سے تین کا قیام 2012ء میں ہواتھا۔ چارسالوں میں اس ایجنسی کو بڑے آتنکی حملوں کی جانچ میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ یہ ایجنسی اب حکمراں سرکار کے اپنے سیاسی حریفوں کو اذیتیں دے کر اپنے آقاؤں کے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں ایک ہتھیار بن گئی ہے۔ پچھلے دنوں ہمیں اس کے کام کاج کرنے کے طور طریقوں سے رونکٹے کھڑے کرنے والی جانکاری ملی۔قارئین کو یادہوگا کہ مالیگاؤں بم دھماکے میں پرگیا سنگھ ٹھاکر سمیت کئی لوگ گرفتار کئے گئے تھے۔ پرگیہ کے رشتے دارگذشتہ دنوں دہلی کے پریس کلب میں اس ایجنسی کے طور طریقوں پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے اکھٹے ہوئے تھے۔ مرکز کی ہندو آتنک واد کے نئے اصول گڑھ نے کے بعد مالیگاؤں بم بلاسٹ کے ملزمان کی کہانی سنتے سنتے پریس کلب میں موجود صحافیوں کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ این آئی نے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے ساتھ حراست میں جہاں ساری حدیں پارکردیں وہیں ان کے خاتون سے سادھوی ہونے تک کا بھی احترام نہیں کیا۔ ٹھاکر کے خاندان والوں کے مطابق پوچھ تاچھ کے دوران سبھی افسر مرد ہوا کرتے تھے۔ سادھوی کے اوپر تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا جاتا رہا۔ پولیس کی پٹائی سے پرگیہ ٹھاکر موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بار بار نارکو ٹیسٹ کرنے کے بعد بھی پولیس کچھ حاصل نہیں کرپائی ۔ دوبرس سے زیادہ وقت گذر جانے کے بعد بھی این آئی اے اب تک پرگیہ کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کرسکی۔ اس کے رشتے داروں نے بگڑتی صحت کو دیکھتے ہوئے اس کا ٹھیک علاج کرانے کے لئے بار بار کی گئی درخواست کو مستردکردیا گیا۔ افسر بار بار ہسپتال سے ان کے صحتمند ہونے کا ثبوت عدالت میں سونپ دیتے۔ 12-03-2012 کو ایک دوسرے معاملے میں بھوپال لائے جانے پر میڈیکل کے دوران پتہ چلا پرگیہ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اب حالت یہ ہے اس کے بچنے کا امکان بہت کم ہے۔ ہندو آتنک واد کی نئی تھیوری میں سب سے بڑے بھگت یوگی بنے اندور کے باشندے دلیپ پاٹی دار کی بیوی کے مطابق ممبئی کی اے ٹی ایس نے اندور ضلع کے کھجرانہ تھانے سے 10-11 نومبر کی رات میں گرفتار کیا تھا لیکن آج پانچ سال گذر جانے کے بعد بھی پاٹی دار کا پتہ نہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ ہم نے پوچھ تاچھ کے بعد اسے چھوڑدیا تھا۔ وہیں مدھیہ پردیش پولیس نے بتایا کہ ممبئی اے ٹی ایس اس کے شوہر کو گرفتار کر ممبئی لے گئی تھی۔ پولیس کے اس غیر انسانی رویئے سے دوچار دلیپ پاٹیدار کے بھائی رام سروپ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی۔ اس پر نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے لاپتہ دلیپ کا پتہ لگانے کی ذمہ داری سی بی آئی کو سونپی تھی لیکن سی بی آئی نے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے ساتھ ساتھ عدالت کو بھی ایک بڑا غیر انسانی چہرہ دکھاتے ہوئے رپورٹ داخل کی اور وہ دلیپ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔آسی مانو پرگیہ ٹھاکر و کچھ دوسرے ہندوؤں کو گرفتار کرنے کے بعد یوپی اے سرکار کے کچھ وزرا نے دیش میں بھگوا آتنک واد کا اشو بہت اچھالا۔ بھاجپا نے بھگوا آتنک واد کا پرچار اس لئے کیا کے سیاسی فائدہ اٹھایاجاسکے۔ سوال اٹھتا ہے کہ این آئی اے کیا اسی مقصد کے لئے قائم ہوئی تھی؟ حکمراں پارٹی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ پرگیہ ٹھاکر وغیرہ کی داستان سننے کے بعد مجھے اس بے گناہ مسلمان لڑکے کے تئیں بھی ہمدردی ہورہی ہے جنہیں اسی طرح گرفتار کرکے ٹارچر کیا جارہا ہے۔ جب وہ ایک طبقے سے ایسا کرسکتے ہیں تو دوسرے سے کیوں نہیں؟ سوال دیش کے جمہوری سسٹم پر اٹھتا ہے۔ ہماری عدالتیں بھی بے قصوروں کو بچانے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ برسوں بعد بھی آج تک چارج شیٹ داخل نہیں ہوسکی اور عدالتیں پرگیہ ٹھاکر و دیگر ایسے ہی معاملوں میں ضمانتیں کیوں نہیں دیتیں؟ کیا عدالتیں پولیس کے ہتھکنڈوں و چالبازیوں کو نہیں سمجھتیں؟ پرگیہ ٹھاکر کی داستان سن کر بہت دکھ ہوا۔ یہ انسانی حقوق والوں کو کیا ہوا۔ یہ بھی اس لئے معاملے کو نہیں اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ معاملہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتا ہے؟ اگر پرگیہ ٹھاکر کی موت ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں