نریندر مودی نے پہنا کانٹوں کا تاج اندر باہر دونوں جگہ چنوتیاں

آخر کاروہی ہوا جس کی امیدکی جارہی تھی۔ بی جے پی میں نریندر مودی کا طوفان کسی سے روکے نہیں رک رہا اور گوا میں چناؤ مہم کی کمان گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو سونپ دی گئی ہے۔ بھاجپا پر نریندر مودی نے جس طرح سے آر ایس ایس کے ذریعے حاوی ہوکر خود کو پارٹی کے آئندہ کے لیڈر کی شکل میں پیش کروایا ، اس پر تنازعہ کھڑا ہونا فطری ہی تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کے آج کی تاریخ میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں اگر کوئی کرشمائی چہرہ ہے تو وہ نریندر مودی ہیں۔ 2014ء کے چناؤ میں اگر بھاجپا کو 200 سے زیادہ لوک سبھا سیٹیں لانی ہیں تو مودی کو آگے کرنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مودی سب کو ساتھ لیکر چلیں۔ اس سال کے آخر تک کئی اہم ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں۔ ان میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، دہلی وغیرہ شامل ہیں جن کے چناؤ کافی اہم مانے جارہے ہیں۔ ان انتخابات کا سیدھا اثر 2014ء کے لوک سبھا چناؤ پر پڑے گا۔ ان ریاستوں میں وہاں کی حکومتیں وزیراعلی کی ساکھ اور سرکار کی کارگزاری یہ وہ اہم نکتے ہوں گے جن پر ووٹر ووٹ دیں گے۔مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ میں شری شیو راج چوہان و ڈاکٹر رمن سنگھ کے کام پر ووٹ ملے گا وہاں مودی کے چہرے کا شاید ہی کوئی فائدہ ملے۔ اس نقطہ نظرسے مختلف بھاجپا حکمراں ریاستوں میں وہاں کے وزرائے اعلی کا رول بھی اتنا ہی اہم بن جاتا ہے جتنا قومی سطح پر نریندر مودی کا ہے۔ انہیں برپائی کرنا بھاری پڑ سکتا ہے۔ ہر چناؤ سے پہلے ایسی کمیٹی قائم ہوتی ہے اور اسکی کمان کسی بڑے نیتا کو سونپی جاتی رہی ہے لیکن یہ پہلی بار چناؤ مہم کی قیادت والا معاملہ شدید بحران اور تنازعات کے ماحول میں طے ہوا۔ یہ بھی شاید پہلی بار ہوا کہ لال کرشن اڈوانی ایگزیکٹو کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں مودی کو ابھی سے وزیراعظم کے عہدے پر امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی پارٹی کے اندر چل رہی کوششوں سے اڈوانی خیمہ خفا ہے۔ حالانکہ جس چالاکی سے راجدھان سنگھ سنگھ کے اشاروں پر مودی کو چناوی کمان دے کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس عہدے کی دوڑ میں مودی کی ٹکر کا کوئی اور لیڈر نہیں ہے اور اسکی مخالفت اب سامنے آرہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے پرائیویٹ لمیٹڈ نہیں جہاں کچھ لوگ اپنی مرضی سبھی پرزبردستی تھونپ سکیں۔ اس حساب سے تو کانگریس اور بھاجپا دونوں ہی یکساں ہوجائیں گی۔ جہاں ایک طرف سونیا گاندھی پر ہر بات کا فیصلہ چھوڑا جاتا ہے وہیں بھاجپا میں اب نریندر مودی کریں گے۔ برسوں سے کڑی محنت اور مشقت کرنے والے لیڈروں کو یوں نظر انداز کرنابھاجپا کے مفاد میں نہیں ہے۔ سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے اور یہ نظریہ نریندر مودی میں نہیں ہے۔ وہ عام طور پرہٹلر اسٹائل سے کام کرتے ہیں۔ کچھ معاملوں میں حالانکہ ایسے ہی اسٹائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کچھ میں سب کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نریندر مودی اور اسکے حمایتی پری پول اتحاد سے فکرمند نہیں ہیں۔ چناؤ میں کون ساتھ آتا ہے یا نہیں اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں لگتی۔ وہ اس کی جگہ پوسٹ پول اتحاد میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا نظریہ صاف ہے پہلے بھاجپا اپنے دم خم پر اتنی سیٹیں تو لے آئے کے این ڈی اے وجود میں برقرار رہ سکے۔ ابھی سے نتیش کمار اینڈ کمپنی فکر کرنے لگے تو 2014ء کا لوک سبھا چناؤ کیسے لڑیں گے؟ اگر پارٹی اچھی تعداد میں سیٹیں لاتی ہے تو مختلف پارٹیاں اپنے آپ اس کے پاس سرکار بنانے کے لئے مدد کو آجائیں گی۔ راجناتھ سنگھ اورآر ایس ایس کولگتا ہے کہ مودی کی جو حال میں ساکھ اور مقبولیت بنی ہے اس کا فائدہ پارٹی کو مل سکتا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ درمیانے طبقے کے ساتھ نوجوان پیڑھی مودی کو ہی پسند کرتی ہے۔ راہل گاندھی ماڈرن ایج کے برعکس مودی ہی کھڑے ہوسکتے ہیں اڈوانی نہیں۔ بہرحال یہ نظریاتی ٹکراؤ کسی ایک شخص کو آگے بڑھانے سے ختم نہیں ہونے والا ہے۔ دونوں فریقین کی دلیلیں اپنی جگہ وزن دار ہیں لیکن بھاجپا کی بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے نظریاتی بحرانوں کے سبب وہ ہمیشہ ایک ہی پریشان زدہ پارٹی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس کے ورکروں اور جنتا میں غلط سندیش جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اتنے نامعقول حالات کے چلتے بھی بھاجپا اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔ کانگریس کا حقیقی متبادل نہیں بن پارہی ہے۔ جنتا کی نبض پرکھنے والے نریندر مودی کو بھاجپا کی طرف سے صرف ذمہ داری ہی نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ملا ہے۔ وہ بھاجپا کی اندرونی سیاست کے ساتھ ساتھ دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کے نشانے پر آگئے ہیں۔ گوا کے ایک ہوٹل میں چلے دو روزہ منتھن میں ایک نئے مودی کا جنم ہوا ہے۔ انہیں بھاجپا ورکروں و آر ایس ایس کی بہ نسبت زیادہ ذمہ داری ملی ہے لیکن اس ذمہ داری کو سنبھالنے میں انہیں بڑی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنی پارٹی میں ان لیڈروں سے بھی چنوتی ملے گی جو برسوں سے وزیر اعظم بننے کے تمنا لئے ہوئے ہیں۔ وہ ہتھیار ڈالنے والے نہیں ہیں۔ مودی نے گجرات ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی کینٹین سے کام کی شروعات کی تھی اور آر ایس ایس سے جڑے ہونے کے سبب وہ کام چھوڑ کر سنگھ کے پرچارک بنے۔ پارٹی نے انہیں ہماچل کا انچارج بنایا اور پھر گجرات بھیجا اور وہ پارٹی کے جنرل سکریٹری بنے۔ کیشو بھائی پٹیل کو ہرانے کے بعد انہیں 2002 ء میں گجرات کا وزیر اعلی بنایا گیا۔ تبھی گجرات میں فسادات ہوگئے۔ اس وقت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے انہیں ہٹانے کی تیاری کرلی تھی لیکن لال کرشن اڈوانی نے انہیں بچا لیا اور مودی مضبوط ہوتے چلے گئے۔ ہیرین پاٹھک کا ٹکٹ کٹوانے سے لیکرامت شاہ کو یوپی کی کمان سنبھالوانے تک نریندر مودی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے دل کی بات کرتے ہیں۔ وہ سیاست میں ایسے منجھے ہوئے سیاسی لیڈر ہیں جو اپنی ہی پارٹی کے نیتاؤں کا مستقبل کچلنے سے کتراتے نہیں۔ ان کے اس ہٹلری طریق�ۂ کار سے خود سنگھ اور آر ایس ایس بھی زیادہ خوش نہیں ہے لیکن ان کی مصیبت یہ ہے کہ ان تنظیموں کو اس میں اپنا اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے امید نظر آتی ہے۔ مودی کو آگے لانا بی جے پی کے لئے ایک صحیح قدم ہے یا غلط یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ مکمل طور پر یہ نظر آرہا ہے کہ اب تک نریندر مودی کولیکر کنٹھا اور آشا کے مخالف معاملوں میں پارٹی اندر اندر گھل رہی تھی اس سے وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟