کیپٹن کوُ ل مہندر سنگھ دھونی کی سالانہ کمائی
بھارت میں کرکٹ کھلاڑیوں کی کمائی کا حساب نہیں۔ جو کامیاب ہیں یا اپنے کیریئر کو صحیح طریقے سے بھنانے میں ماہر ہے اس پر اوپر والا دولت کی ایسی بارش کررہا ہے جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ میںیہاں خاص طور پر ٹیم انڈیا کے کپتان مسٹر کول یعنی مہندر سنگھ دھونی کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی مفادات کے ٹکراؤ کو لیکر بیشک اس وقت تنازعات میں گھرے ہوں لیکن سب سے زیادہ کمائی کرنے والے دنیا کے 100 کھلاڑیوں میں وہ 16 ویں مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کی سالانہ آمدنی 3 کروڑ15 لاکھ ڈالر یعنی (179 کروڑ روپے ) ہے۔ وہ فارمولہ I- اسٹار فرنائینڈو اولانسو (3 کروڑ ڈالر) ٹینس بادشاہ ماواک جوکاوک (2.69 کرور ڈالر) تیز ایتھلیٹ اوزین بورڈ سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔ بزنس میگزین فاربیس نے اپنے سالانہ سروے میں پچھلے ایک برس کی کمائی کی بنیاد پر یہ اعدادو شمار پیش کئے ہیں۔ گولف کے بے تاج بادشاہ امریکہ کے ٹائیگر ونڈس ایک بار پھر کمائی میں نمبر ون ہیں۔ ان کی سالانہ کمائی 7 کروڑ80 لاکھ ڈالر ہے جبکہ گرینڈ سلیم خطاب پر قبضہ کرنے والے سوئزرلینڈ کے راجرفیڈرر 7 کروڑ10 لاکھ ڈالردوسرے مقام پر ہیں۔ ماسٹر بلاسٹر سچن تندولکر کی کمائی 2 کروڑ20 لاکھ ڈالر ہے جس میں 1 کروڑ80 لاکھ ڈالر اسپانسر شپ سے اور 40 لاکھ ڈالر کی کمائی ایوارڈ رقم کی شامل ہے۔ کمائی کی دنیا کی100 بڑی کھیل ہستیوں میں صرف2 کرکٹر ہیں اور وہ دونوں ہندوستان سے ہیں۔ کبھی کبھی اتنے پیسوں کے ساتھ تنازعات بھی ہوجاتے ہیں۔ مہندر سنگھ دھونی بھی ایک ایسے ہی تنازعے میں پھنستے جارہے ہیں۔ ان کے اوپر ایک نیا الزام لگ رہا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی خبر کے مطابق اسپاٹس مارکنگ فرم رتی اسپوٹ مینجمنٹ میں دھونی کی15 فیصدی حصے داری ہے۔ یہ کمپنی ٹیم انڈیا میں کھیلنے والے چار دوسرے کھلاڑیوں کا بھی انتظام دیکھتی ہے۔ کمپنی دھونی کے قریبی دوست اور کاروبار میں ساتھی ارون پانڈے چلاتے ہیں۔ یہ کمپنی ان کی کاروباری زندگی کو بھی دیکھتی ہے۔ یہ کمپنی کئی طرح کے کاروباری اداروں سے جڑی ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق کم سے کم دو معاملے میں مالکانہ اور مفادات کے ٹکراؤ کے حالات بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ چنئی سپر کنگ کے مالک سری نواسن کی کمپنی انڈیا سیمنٹرکس میں دھونی وائس پریسیڈنٹ ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مہندر سنگھ دھونی کی رتی اسپاٹس میں 15 فیصدی کی حصے داری ہے اسی وجہ سے مفادات کے امکانی ٹکراؤ کا سوال اٹھ رہا ہے۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ کمپنی آر پی سنگھ ،سریش رینا، رویندر جڈیجہ اور پرگیان اوجھا کا بھی انتظام دیکھتی ہے۔ ان میں جڈیجہ ،رینا اور چنئی سپرکنگ کے لئے آئی پی ایل میں کھیلتے ہیں۔ 2010ء میں دھونی نے رتی اسپاٹس کے ساتھ210 کروڑ روپے یعنی سالانہ 70 کروڑ روپے کا معاہدہ کیا تھا۔ بھارتی کرکٹ میں سب سے مہنگا معاہدہ تھا۔ جب شری جگموہن ڈالمیا سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا مفادات کے ٹکراؤ کے اس معاملے پر چمپئن ٹرافی کے خاتمے پر جانچ کی جاسکتی ہے۔ اگر ان الزامات میں سچائی پائی گئی تو بی سی سی آئی اپنے قانون کے مطابق کارروائی کرسکتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کے کرکٹ میں پیسہ آرہا ہے اور وہ دن جا چکے جب کسی بین الاقوامی کھلاڑی کے پاس دو بلے ہی ہوا کرتے تھے یا کھیل میں اچھا خاصا کیریئر چھوڑ کر کوئی پکی نوکری ڈھونڈ لیتا تھا۔ لیکن اس پیسے کے ساتھ جو برائیاں سامنے آئی ہیں وہ اس خوشی کو کم کرتی ہیں۔ کھیل کا کمرشل ہونا کوئی برائی نہیں ۔تجارت کے ساتھ پیسہ آتا ہے جو کھیل کو اچھی طرح چلانے کیلئے ضروری ہے لیکن جو کاروبار ہو وہ صاف ستھرا ہو۔ اچھے کاروبار کے اقتصادی اوراخلاقی تقاضوں کے مطابق ہو۔ دھونی اچھے کھلاڑی ہیں، اچھے کپتان ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن متنازعہ بورڈ چیئرمین این سری نواسن کے ساتھ ان کے کاروباری رشتے و رتی اسپاٹس سے ان کی سانجھیداری کو لیکر اٹھے سوالوں کا دیش کی جنتا جواب ضرور چاہے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں