پھر کھٹائی میں پڑی اندرونی سلامتی کیلئے این سی ٹی سی کی تشکیل
دیش کی اندرونی سلامتی پر غو و خوض کے لئے بلائی گئی وزرائے اعلی کی میٹنگ سیاسی گھمسان میں بدل گئی اور بیحد افسوسناک اور بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اس بات کی ضرورت تو سبھی مانتے ہیں کہ دہشت گردی سے کارگر ڈھنگ سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر ایک مشینری قائم کی جائے اس لئے کہ دہشت گردی ایک منظم کرائم ہے جس کے تار پورے دیش میں پھیلے ہوئے ہیں ،سرحد پار بھی ۔ مگر اس سمت میں این سی ٹی سی یعنی قومی دہشت گردی انسداد مرکز کے طور پر مرکزی وزرات داخلہ کی پہل کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ شاید ہی نکلے۔ اندرونی سلامتی کے مسئلے پر گذشتہ بدھوار کو مرکز کی جانب سے بلائی گئی وزرائے اعلی کی میٹنگ میں ایک بار پھر جس طرح سے ریاستوں کے اعتراض سامنے آئے اس سے لگتا ہے کہ این سی ٹی سی کی تشکیل فی الحال تو کھٹائی میں پڑتی نظر آرہی ہے اور شاید 2014ء کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے اس کا قیام شاید ہی ممکن ہوسکے۔ اس میٹنگ میں نہ تو انسداد دہشت گردی سینٹر یعنی این سی ٹی سی پر کوئی اتفاق رائے ہو پایا اور نہ ہی نکسلیوں سے کیسے نمٹا جائے اس پر کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب ہوئی؟ کیونکہ این سی ٹی سی کی کچھ شقوں پر کانگریسی وزرائے اعلی نے بھی اعتراض ظاہر کیا اس لئے مرکزی حکومت محض غیر کانگریس حکمراں ریاستوں کے وزرائے اعلی پر ہی الزام نہیں جڑ سکتی کہ وہ اندرونی سلامتی کے مسئلے پر سیاست کررہے ہیں۔ این سی ٹی سی پر ریاستوں کے اعتراضات کو قطعی بے بنیاد نہیں مانا جاسکتا۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے میٹنگ میں بنا لاگ لپیٹ کے سرکار اور کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا جہاں عشرت جہاں معاملے سے مڈ بھیڑ میں خود کو پھنسانے کا الزام لگادیا وہیں وزیراعظم کو بھی چیلنج کرڈالا کہ اگر آپ کو ہم سے لڑنا ہے تو سیاسی طور پر لڑیئے اس میں ایجنسیوں کا استعمال غلط ہے۔ مودی نے وزرائے اعلی کی بھری کانفرنس میں یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔ اپنی تقریر میں مودی نے اس کانفرنس کے انعقاد کے جواز کو ہی سرے سے مسترد کردیا۔ نکسلی و دہشت گردی پر سرکاری پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سیدھے کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قومی مشاورتی کمیٹی نے ماؤوادیوں کے ہونے کا بیان دے کر حکمراں مشینری پر سیدھا حملہ بول دیا اور انہوں نے کہا پچھلے 10 سال میں ایسے کئی اجلاس ہوئے لیکن وزرائے اعلی کی تجویز پر سرکار نے کیا کارروائی کی اس بارے میں دیش کے سامنے وائٹ پیپر لایا جانا چاہئے۔ پچھلے دنوں ہوئے نکسلی تشدد کے واقعے کے پس منظر میں انہوں نے یوپی اے سرکار کو ہی اس حالت کے لئے ذمہ دار ٹھہرادیا۔ انہوں نے تلخ انداز میں کہا جو لوگ نکسلیوں کے ساتھ جڑے ہیں انہیں کبھی پلاننگ کمیشن تو کبھی قومی مشاورتی کونسل میں رکھ لیا جاتا ہے۔ نریندر مودی کے اس الزام کو بھی ہلکے سے نہیں لیا جاسکتا۔ دیش کی دو بڑی جانچ ایجنسیوں انٹیلی جنس بیورو اور سی بی آئی کو ایک دوسرے کے مقابلے کھڑا کردیا گیا ہے۔ مودی کے اس الزام کے پیچھے عشرت مڈ بھیڑ کانڈ ہے جس میں چند مبینہ دہشت گردوں کو پولیس نے مار گرایا۔ اس مڈ بھیڑ کی جانچ سی بی آئی کررہی ہے جبکہ جانچ کے دائرے میں آئی بی کے ایک سابق افسر بھی آگئے ہیں جن پر غلط اطلاع دینے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ پی چدمبرم اس الزام کو سی بی آئی کے کام کاج میں مداخلت بتا کر مودی کی تنقید کررہے ہیں۔ دوسری طرف جب مودی نے دہشت گردی کے خلاف سخت قانون کی مانگ کی تو چدمبرم پوٹا اور ٹاڈا جیسے دہشت گرد انسداد قانون کا حوالہ دیکر بی جے پی کو اقلیتی مخالف بتاتے ہوئے کہا کہ اس کو لیکر کافی سیاست ہوئی تھی اور بعد میں انہیں منسوخ کردیا گیا ۔اب بتائیے کے اس اجلاس میں نکسلی اور ماؤوادی دہشت گرد جیسے پیچیدہ مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈا جارہا تھا یا آنے والے لوک سبھا چناؤ میں ووٹ بٹورنے کی سیاست جاری تھی۔ شکر ہے کہ آخر میں نکسلی متاثرہ ریاستوں کو یہ ہوش آگیا کہ وہ کس وجہ سے یہاں اکھٹے ہوئے ہیں۔ طے ہوا کہ نکسلیوں کی کمر توڑنے کے لئے ان کی حکمت عملی کا توڑ کیا جائے اور اس کے لئے جنگلوں میں تیندوپتے کی تجارت کو نجی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں سے نکال کر سرکاری ہاتھوں میں دے دیا جائے ۔ بیشک بیڑی بنانے میں استعمال ہونے والے تیندوپتوں کے کاروبار میں لگے تاجروں سے نکسلی کافی پیسہ وصولتے ہیں لیکن سرکاری ہاتھوں میںآنے کے بعد اس پر کنٹرول ہونے کیا کیا گارنٹی ہے؟ کیا سرکار ی ملازم نکسلیوں کے گڑھ میں گھسنے کی ہمت دکھا پائیں گے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں