اصل لڑائی اڈوانی بنام مودی نہیں سنگھ بنام اڈوانی ہے

بھاجپا کے سرپرست اعلی لال کرشن اڈوانی کے پارٹی کے سبھی اہم عہدوں سے استعفے کولیکر پیدا بحران آخر کار منگل کے روز ان کے ذریعے اپنے استعفے واپس لئے جانے کے فیصلے کے بعد ختم ہوگیا۔ پارٹی کے قومی صدر راجناتھ سنگھ نے خود اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے اڈوانی کے ساتھ فون پر بات چیت کی اور بھاجپا کے پارلیمانی بورڈ کے فیصلے کو مانتے ہوئے قومی مفاد میں پارٹی کا مارگ درشن کرتے رہنے کی اپیل کی تھی۔ دراصل یہ لڑائی یا تنازعہ اڈوانی بنام مودی سے شروع ہوا تھا۔ ہمیں نہیں لگتا یہ تنازعہ اڈوانی بنام آر ایس ایس ہے ۔ کچھ باتیں تحریرمیں لائی جانے والی باتیں نہیں ہوتی لیکن جو باتیں تحریر میں لائی گئی ہیں ان کے اپنے الگ معنی ہیں۔ اڈوانی نے اپنے استعفے میں کئی باتیں لکھی ہیں ان میں سب سے اہم اس کے نشانے پر پارٹی لیڈر شپ ہے۔’’ میرے لئے عرصے سے یہ مشکل ۔۔۔ پارٹی کس طرح کام کررہی ہے۔۔۔‘‘اڈوانی کے خط میں یہ لائنیں پارٹی کے کام کرنے کے طریقے اور آگے کی سمت پر سوال اٹھاتی ہیں۔ اڈوانی کچھ مہینوں سے پارٹی کے اندر چل رہے واقعات کو دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ صدر راجناتھ سنگھ کے کام کرنے کے طریقے کو ’’ڈبل گیم‘‘ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ کئی طرح کی بحث کے باوجود دھرمیندر پردھان کو پھر سے پارٹی عہدہ دینا اپنے لوگوں کو سنگھ کے ساتھ مل کر بنوانا، گجرات میں سنگین الزامات سے گھرے امت شاہ کو جنرل سکریٹری بناکر اور پھر یوپی کا انچارج بنانا یہ سب سنگھ کی اجازت کے بعد ہی راجناتھ نے کیا ہے۔ بحث تو یہاں تک ہے کہ امت شاہ کو یوپی کا انچارج اس لئے بنایا گیا کے مودی کو بنارس سے چناؤ لڑنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس پیشکش سے مودی کو نارتھ انڈیا میں اینٹری دلانا ہے اور وارانسی کی قیادت کرتے رہے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی سیٹ کو بھی خطرہ ہے۔ اڈوانی نے کبھی بھی نریندر مودی کی مخالفت نہیں کی۔ اڈوانی سنگھ اور راجناتھ سنگھ سے ناراض ہیں۔ اڈوانی اس بات سے حیران تھے کہ مودی معاملے پر سنگھ نے یہ پروپگنڈہ کیوں کیا۔ اڈوانی ہوں یا نہ ہوں،مودی پر فیصلہ ہوگا۔ پارٹی کے بڑے نیتا کے بارے میں احترام اور صبر کی زبان کو ترک کرکے جو کچھ گوا اور دیگر مقامات پر کہا گیا اس کے بعد پارٹی میں رہنے کا مطلب کیا بنتا ہے؟ بھاجپا بھلے ہی اپنے روٹھے بابا کو منانے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن لگتا ہے کہ سنگھ اب اڈوانی سے نجات چاہتا ہے۔ سنگھ کے معاون صدر سریش سونی کے کہنے پر بھی بھاجپا نے گوا کانفرنس میں نریندر مودی کو لیکرفیصلہ کیا جبکہ پارٹی کا ایک بڑا طبقہ چاہتا تھا یہ اعلان اڈوانی کی موجودگی میں ہو۔ سنگھ نے صاف کہہ دیا کہ اڈوانی کے اس قدم سے بھاجپا کو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوہی گیا۔ اب اس کی بھرپائی نہیں ہوسکتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سنگھ نے پچھلے دنوں کہہ دیا تھا کہ اڈوانی سے لیکر ڈاکٹر جوشی سمیت ان سبھی بزرگ لیڈروں کو چناوی سیاست سے ہٹ جانا چاہئے جن کی عمریں 70 سال ہوچکی ہیں۔ اس پر اڈوانی نے سنگھ سے کہا کہ وہ ابھی صحت مندہیں اور ان کے سیاست میں رہنے سے عمر کو کوئی جواز نہیں بنایا جانا چاہئے۔ دراصل سنگھ اور اڈوانی کے درمیان سانپ سیڑھی کا کھیل کافی عرصے سے جاری ہے۔ نتن گڈکری کی دوبارہ تاجپوشی میں اڈوانی کے رول کو سنگھ بھولا نہیں ہے۔ سنگھ کسی بھی قیمت پر بھاجپا کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے جبکہ اڈوانی سمیت پارٹی کا ایک بہت بڑا گروپ بھاجپا کو سنگھ کے چنگل سے نکالنا چاہتا ہے۔ راجناتھ سنگھ سنگھ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اڈوانی اور سنگھ کے خیمے کے درمیان اہم مذاکرات کاروں کے رول میں شامل پارٹی کے ایک سینئر نیتا کی مانیں تو ایک طرف سنگھ میں جہاں اڈوانی کو اس بات کے لئے راضی کرلیا کے وہ چناؤ کمیٹی کے علاوہ دوسری کمیٹی کی تشکیل کی مانگ کو چھوڑدیں گے ساتھ ہی گوا میں ہوئے فیصلے کا وہ سنمان کریں گے ۔ وہیں دوسری طرف سنگھ نے اڈوانی کو یقین دلایا کہ مستقبل میں پارٹی کے ذریعے جب بھی وزیراعظم کا امیدوار طے کیا جائے گا اس فیصلے میں ان سے رائے لی جائے گی اور ان کے بغیرآگے نہیں بڑھے گی۔ ساتھ ہی سنگھ کے چیف نے پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کو صلاح دی کہ وہ پارٹی کے بزرگ لیڈروں کے مشورہ پر خاص توجہ دیں۔ رام لال کا رول اور سریش سونی کا طریقہ کار پر جائزہ لینے کی سنگھ نے اڈوانی کو یقین دہانی کرائی ہے۔اس پورے معاملے سے ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ پارٹی کے اندر اور باہر جو لوگ اڈوانی کو ختم مان چکے تھے ان کو ایک بار پھر دکھا دیا گیا کہ ابھی پارٹی میں ان کو درکنار کرکے ایک طرفہ فیصلے کرنا آسان نہیں ہے۔
 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟