یوپی حکومت کو مشتبہ دہشت گردی کیس واپس لینے پر عدالتی روک

اترپردیش کی اکھلیش یادو سرکار ووٹ بینک کی سیاست کے چلتے بار بار عدلیہ سے ٹکرا رہی ہے۔ تازہ معاملہ یوپی کے مختلف اضلاع میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف درج کیس واپس لینے کا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے پردیش میں ہوئے سیریل بم دھماکوں میں ملوث مبینہ دہشت گردوں کو ریاستی حکومت کے ذریعے رہا کرانے و مقدموں کو واپس لینے کی کارروائی پر انترم روک لگادی ہے۔ بنچ نے معاملے کی سماعت کیلئے ایک سینئر بنچ کو معاملہ ٹرانسفر کردیا ہے۔ لکھنؤ کی بنچ نے عرضی کو نظرثانی کے لئے قبول کرلیا ہے۔ جسٹس راجیو شرما ،مہندر دیال کی ڈویژن بنچ نے یہ حکم رنجنا اگنی ہوتری سمیت 6 وکیلوں کی جانب سے دائر عرضی پر اڈوکیٹ ہری شنکر جین کو سننے کے بعد دیا ہے۔ حکومت نے بنچ کے اس حکم پر ایک مختصر حلف نامہ پیش کیا جس میں دہشت گردی کے معاملوں سے جڑے 8 مقدموں کا حوالہ دیا گیا۔ سرکار کی جانب سے دلیل دی گئی کہ عرضی مفاد عامہ کی شکل میں نہیں مانی جاسکتی اسے خارج کیا جانا چاہئے۔ ساتھ ہی کہا کہ اس میں سابق الہ آباد اور لکھنؤ میں دو معاملوں میں بنچ ایسی عرضیاں خارج کرچکی ہے۔ جواب میں عرضی گذار کے وکیل ہری شنکر جین نے کہا کہ ماضی گذشتہ میں دائر عرضیوں کے معاملے میں نہ تو مرکزی سرکار سے منظوری لینے کا اشو اٹھا اور نہ ہی بنچ نے اس پر غور کیا۔ ایسی صورت میں عرضی سماعت لائق ہے۔ عرضی گذار کی دلیل تھی کہ دہشت گردی سے جڑے ان مقدموں کو پردیش سرکار مرکزی حکومت کی منظوری کے بغیر واپس نہیں لے سکتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ سرکار مذہبی بنیادپر بھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی صرف دلیل سننے کے بعد عدالت ہذا نے مقدمہ واپس لینے کی کارروائی روکنے کے احکامات دئے۔ ساتھ ہی کہا یہ معاملہ بیحد اہمیت کا حامل ہے لہٰذا بڑی بنچ میں سماعت کے لئے سونپے جانے کی منظوری الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مانگی گئی ہے۔ عرضی میں یہ بھی دلیل دی گئی کہ سیریل بلاسٹ معاملوں میں اے ٹی ایس نے کافی کوشش کر بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ریاستی سرکار کا یہ کام غلط ہے اور اس سے دیش کی سلامتی اور ایکتا میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیض آباد، بنارس ، لکھنؤ کی عدالتوں میں اور دیش کے بہت سے شہروں جیسے ممبئی، احمد آباد، حیدر آباد اور کئی مذہبی مقامات پر دھماکے کرنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے مبینہ دہشت گردوں کو بری کیا جانا قانون کی منشا کے خلاف ہے۔ جہاں ہم اترپردیش سرکار کے موقف سے متفق نہیں وہیں یہ بھی کہنا چاہیں گے کے عدالتوں کو ایسے معاملوں میں جلد فیصلے لینے چاہئیں۔ اگر کوئی بے قصور پولیس کے ذریعے زبردستی پھنسایا گیا ہے تو اسے انصاف ضرور ملنا چاہئے اور بھی جلد سے جلد۔ سالوں سال ایسے حساس معاملے لٹکے رہتے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے اور آخر میں وہ بے قصور پائے جاتے ہیں یہ نہیں ہونا چاہئے۔ عدالتوں کو ایسے معاملوں میں چھوٹی چھوٹی تاریخیں دے کر معاملوں کو نپٹا دینا چاہئے۔ عدالت اتنا تو کرسکتی ہے کہ وہ ابتدائی دور میںیہ دیکھنے کی کوش کرے کہ پہلی نظرمیں وہ شخص دہشت گردی کی سرگرمیوں میں شامل لگتا ہے یا پھر زبردستی پولیس نے اسے پھنسایا ہے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟