گوروناتھ میپپن کے بعد اب شلپا شیٹھی اور راج کندرا؟

دہلی پولیس نے جمعرات کو یہ سنسنی خیز دعوی کیا کہ اسپاٹ فکسنگ معاملے میں راجستھان رائلس ٹیم کے مالک بھی شامل ہیں۔ راج کندرا نہ صرف سٹے بازی میں شامل تھے بلکہ اپنی ہی ٹیم پر سٹہ لگاتے تھے۔ خیال رہے کہ یہ دوسرا معاملہ ہے جب ٹیم کے مالک خود سٹے بازی میں ملوث ہوں۔ پہلا معاملہ چنئی سپر کنگ کے مالک اور سی ای او گوروناتھ میپنن کا ہے جب آئی پی ایل ٹیمپوں کے کرتا دھرتا ہی سٹے بازی میں ملوث ہوں تو پھر یہ امیدکرنا بے معنی ہے کہ وہ اپنی ٹیموں کے کرکٹروں پر نظر رکھ سکیں کہ کہیں وہ سٹے بازی کے کھیل میں تو شامل نہیں ہیں۔ اگر دہلی پولیس کی باتوں پر یقین کیا جائے تو دونوں میاں بیوی یعنی راج کندرااور شلپا شیٹھی سٹہ لگاتے تھے۔ پولیس نے یہ دعوی بدھوار کو راج کندرا اور ان کے دوست امیش گوئنکا سے پوچھ تاچھ کے بعد کیا ہے۔ راج کندرا اور امیش گوئنکا سے پوچھ تاچھ میں سامنے آیا کہ راج سیدھے طور پر 7 سٹوریوں کے رابطے میں تھے جبکہ دیگر 6 سے وہ اپنے ساتھی امیش کے ذریعے جڑے تھے۔ راج کندرا نے آئی پی ایل میچوں میں قریب3 سال سے سٹے بازی کرکے قریب 1 کروڑ روپے گنوائے ہیں۔ یہ بیان انہوں نے خود پوچھ تاچھ کے دوران پولیس کے سامنے دیا۔ بتایا کہ وہ اکثر اپنی ٹیم کے حق میں ہی داؤ لگاتے تھے۔ سٹہ لگانے کی بات قبول کرنے کے بعد اب راج کندرا پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ وہیں پولیس جانچ میں پتہ چلا ہے کہ لندن میں پیدا راج کندرا جو این آر آئی بزنس مین ہے، بنیادی طور سے ان کے آباو اجداد پنجاب سے ہی تھے اور میچوں میں سٹہ لگانے کا ان کا شوق پرانا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ برطانیہ میں گھریلو اور قومی اور بین الاقوامی کرکٹ میچوں میں سٹہ لگاتے رہے ہیں۔ راج برطانیہ میں بیٹھ کر اپنے بزنس پارٹنر امیش گوئنکا کے ساتھ سٹے بازی کا کھیل کھیلا کرتاہے۔ دہلی پولیس کے مطابق شلپا شیٹی نے بھی دہلی۔ کولکتہ میں ہوئے میچ میں سٹہ لگایا تھا۔ حالانکہ ابھی تو پولیس یہ کہہ رہی ہے کندرا کی گرفتاری کے لئے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر کندرا کو گرفتار کیا جاسکے۔ گلوبنگ ایکٹ کے تحت گرفتاری کے لئے پولیس کے پاس ریکوری وغیرہ ہونی چاہئے جو کہ پولیس کے پاس نہیں ہے۔ حالانکہ مستقبل میں گرفتاری سے انکار نہیں کررہی ہے۔ راج کندرا اس کے ساتھی امیش گوئنکا کے نام کا انکشاف پہلی بار سدھارتھ ترویدی نے بھی پوچھ تاچھ میں کیا تھا۔ اسپاٹ فکسنگ معاملے میں سدھارتھ کو اسپیشل سیل نے سرکاری گواہ بنا لیا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹیم کے مالکوں نے کھلاڑیوں پر نظررکھی نہ بی سی سی آئی نے۔ شاید بی سی سی آئی کو بھی اس سے کوئی مطلب نہیں رہا ہوگا اس کے قاعدے قانون کی تعمیل ہورہی ہے یا نہیں؟ کیا آج بی سی سی آئی یہ دعوی کرسکتی ہے کہ آئی پی ایل ٹیموں کے ان دونوں ملکوں کے علاوہ دیگر کوئی اس طرح کے کام میں ملوث نہیں ہے؟ مشکل تو یہ ہے کہ بی سی سی آئی نے اپنی طرف سے اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے اس کی ساکھ گرتی ہو۔ بھروسے پر تھوڑی زک ضرور لگے گی۔ چیئرمین کو ہٹانے پر جس ڈھنگ سے لیپا پوتی کی گئی اس سے اس کے بھروسے پر اور دھکا لگا ہے۔ فی الحال تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اسپاٹ فکسنگ کی جڑیں کتنی گہری ہیں لیکن اتنے لوگ شامل ہونے کی بات سامنے آنے سے یہ تو طے ہے کہ یہ کھیل لمبا ہے۔ بھلے ہی سٹے بازی اسپاٹ فکسنگ کی طرح سنگین جرم کے زمرے میں نہیں آتی لیکن یہ بھی قطعی طور پر منظور نہیں کے آئی پی ایل ٹیموں کے کنوینر یا مالک سٹوریوں کے ساتھ مل کر سٹہ کھیلیں اور اپنی ٹیموں پر سٹہ لگانے میں کوئی جھجھک نہ کریں۔ کھیل کے اس طرح کے کاروبار میں تبدیلی ہونے سے کرکٹ کے بھروسے پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ بی سی سی آئی کو نہ صرف آئی پی ایل کی بلکہ اپنے اور دیش کے بھروسے کو بحال کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے اس کے کہیں اور تار ابھی تک نظر نہیں آئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟