تیسری بار ہوئی میاں نواز شریف کی تاجپوشی

دیکھا جائے تو پاکستان کی پوری تاریخ میں جمہوری طریقے سے تبدیلی اقتدار ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جس دیش میں فوج ہمیشہ اقتدار پر حاوی رہی ہو یہاں چناؤ جیت کر آنا میاں نواز شریف کی ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی جیت ہے۔قومی اسمبلی جیت کر نواز تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہیں جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پہلے بھی وہ دو بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن دونوں بار کسی منتخبہ سرکار کو غیر جمہوری طریقے سے گرادیا گیا۔ موجودہ سیاسی ماحول کو لانے میں سابق صدر آصف زرداری کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ تمام تضاد اور سیاسی چال بازیوں کے درمیان انہوں نے پورے پانچ سال جمہوری سرکار چلا کر پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد مضبوط کی۔ اب تک پاک فوج کے اقتدار میں بڑھتے اثر کو بھی کم کیا ہے۔ اس درمیان پاکستانی فوج اور اکثر اس کی شے پر کام کرنے والی وہاں کی عدالتوں نے پی پی پی حکومت کے راستے میں تمام روڑے اٹکانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے دو وزیر اعظم عدلیہ کے حکم پر ہٹائے گئے پھر بھی سرکار چلتی رہی۔ پاکستانی سماج کے لئے یہ بات بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس سے نکلے موقعے کا استعمال نواز شریف کو اپنی جمہوریت کی بنیاد اور بھی زیادہ مضبوط بنانے میں کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ان کے پاس اچھی خاصی اکثریت ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے پاکستانی پارلیمنٹ میں حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان ابھی ویسی کوئی تلخی نہیں ہے جس کا استعمال وہاں کی جمہوریت مخالف طاقتیں بڑی آسانی سے کر لے جاتی تھیں۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں چار ترجیحات بیان کی ہیں۔ ان میں بجلی کا بحران دور کرنا، معیشت کا ڈھانچہ درست کرنا ان کی سب سے اولین ترجیح ہے ۔کرپشن دور کرنے، اندرونی سلامتی کے حالات بہتر بنانے کی بات بھی انہوں نے کی ہے۔ بھارت کے لئے پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونا ، وہاں کی سیاست میں ٹھہراؤ آنا اچھی خبر ہے لیکن چاہتے ہوئے بھی میاں نواز بھارت کے تئیں پاکستان پالیسی میں زیادہ تبدیلی نہ کرپائے۔ حلف لینے کے بعد اپنی تقریر میں غیر ملکی محاذ پر صرف چین کے ساتھ رشتوں کا ذکر کرنا اس کا واضح اشارہ ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کا تو ذکر کیا ہی تقریر کے دوران انہوں نے بھارت کے ساتھ رشتوں کا معمولی سا بھی ذکر نہیں کیا۔ پاکستانی علاقے سے ہوکر پاکستانی بندرگاہ گوادر اور چین کے شنگ چیانگ علاقے کو جوڑنے والی سڑک اور پلے لائن کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا یہ اشارہ دیتا ہے کہ پاکستان کا آج سب سے بڑا دوست چین ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت سے رشتوں کو لیکر پاک فوج اور جہادی تنظیموں کا سخت رویہ ہے۔ اس کے پیش نظر ہی نواز اپنی تقریر میں بھارت کے ساتھ رشتوں کا کوئی ذکر کرنے سے بچے۔ نواز نے خارجی اور وزارت دفاع کو اپنے پاس رکھ کر یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ خارجی اور دفاع پالیسی اپنے حساب سے چلائیں گے لیکن ہمیں شبہ ہے کہ ان دونوں معاملوں پر پاکستانی فوج کا فیصلہ آخری ہوسکتا ہے۔ ہم نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہیں۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟