مشن مودی2014ء کا راستہ لکھنؤ سے گزرتا ہے

مشن مودی2014ء کی کہانی تیار ہے اور اس کا پہیہ اترپردیش کو بنایاگیا ہے۔ مودی ۔اڈوانی معاملے کے سلجھنے کے بعد بھاجپا نیتاؤں کو اب پورا یقین ہوچلا ہے کہ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے بعد مرکز میں بھاجپا کی قیادت میں ہی سرکار بنے گی اور اس کے بننے کی بنیاد اترپردیش سے ملنے والی ہے۔ اسی کے تحت نریندر مودی نے اپنے سپہ سالار امت شاہ کو یوہی بھاجپا کا انچارج بنوادیا ہے۔امت شاہ جب لکھنؤ پہنچے تو ان کا شاندار خیر مقدم ہوا۔ انہوں نے بھی اپنے ارادے اور مقصد کو صاف بتادیا اور بڑے بھروسے سے کہا کہ 2014ء میں مرکز میں بھاجپا کی قیادت میں این ڈی اے کی سرکار بنے گی اور اس کی مضبوط بنیاد اترپردیش سے ہی پڑے گی۔ شاہ کے خیر مقدم میں بھاجپا ورکروں کا جوش بتا رہا تھا کہ تنظیم میں اتحاد ہے اور کوئی گروپ بندی نہیں۔ شاہ کے آنے سے بھاجپا کی یوپی یونٹ میں جان پڑگئی ہے۔ لکھنؤ کی سرزمیں پر قدم رکھتے ہی امت شاہ نے اپنے ارادے ظاہر کردئے۔ وہ یوپی میں نریندر مودی کا ایجنڈہ لاگو کریں گے اور وہ بھی پوری شدت کے ساتھ۔ بھاجپا کو تیسرے پائیدان سے اوپر لانے کے لئے وہ کسی بھی خاکے پر یہاں کے لیڈروں سے کوئی بات کرنے کوتیار ہیں۔نریندر مودی کو سردار بلب بھائی پٹیل کی تشبیہ دیتے ہوئے آہنی تقویت پہنچانے کی خاطر مہم کو ہر قیمت پر کامیاب بنانے کا حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ تیسرے مورچے کی تشکیل کے امکان کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا دیش میں دو طرح کی سیاست شروع ہوچکی ہے۔ تیسرے مورچے کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امت شاہ نے حکمراں سماج وادی پارٹی اور اپوزیشن بہوجن سماج پارٹی دونوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا مرکزی سرکار جو کچھ کررہی ہے اس میں ان دونوں کی حمایتی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے ۔بغیر ان دونوں کی حمایت سے مرکز حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ اکھلیش یادو کی حکومت کو للکارتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ وہ ہی نہیں بلکہ پردیش کی یوپی سرکار فرقہ پرستی کا ماحول پیدا کررہی ہے۔ سپا حکومت ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے اور مسلمانوں کی خوش آمدی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ جنتا میں ناراضگی ہے۔ اس کو بھاجپا آواز دے گی اور اس ناراضگی کو ووٹوں میں بدلے گی۔ شاہ کا کہنا ہے اترپردیش میں حالات بھاجپا کے حق میں ہیں۔ ریاست میں تبدیلی کی لہرہے ۔دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہی گزرتا ہے۔ نریندر مودی اور راجناتھ سنگھ کی ٹیم نے امت شاہ کو اترپردیش کی ذمہ داری دے کر بہت بڑا جوا کھیلا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ پورے دیش کے اقلیتوں کو کھلا چیلنج ہے وہیں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو بھی کھلی چنوتی ہے۔ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش کی خاص اہمیت ہے۔ پچھلی مرتبہ جب واجپئی حکومت اقتدار سے باہر ہوئی تھی تو اس کی ایک وجہ اترپردیش میں کم لوک سبھا سیٹوں کا آنا، مودی ۔راجناتھ کی ٹیم اس کمی کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ امت شاہ پردیش میں بٹی ہوئی پارٹی، ورکروں میں نئی طاقت ڈالنے کے لئے کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن دو باتیں تو صاف ہیں پہلی یہ کہ بھاجپا میں اب مودی دور کا آغاز ہوگیا ہے اور پارٹی یوپی میں پھر سے ہندوتو پر لوٹے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟