بھولے کے مندر پر آنچ نہیں آئی، باقی سب طرف تباہی

مجھے تو یقین نہیں ہورہا ہے کہ اتراکھنڈ میں ایسا سیلاب آیا، قدرت کا قہر ٹوٹا۔ پوری ریاست میں تباہی کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ کیدارناتھ دھام سوائے مندر کے سارا تباہ ہوگیا ہے۔ میری نظروں میں ابھی وہ تصویر قائم ہے جب پچھلے سال 19 اگست2012ء کومیں اور میرے کچھ ساتھی کیدارناتھ گئے تھے۔ تین دن کے سفر میں دہلی سے نکلتے ہی بارش ہوگئی اور لوٹنے تک وہ نہیں رکی تھی۔ وہ گوروکنڈ کا ہوٹل جہاں ہم نے رات گذاری تھی ،وہ رام باڑا جہاں ہم نے کیدارناتھ جاتے وقت رک کر چائے اور پکوڑے کھائے تھے، وہ چھوٹا لوہے کا پل جس پر کھڑے ہوکر فوٹو اور ویڈیو کھینچی تھی، وہ بازار جس سے گذر کرہم مندر میں داخل ہوئے تھے، وہ ہوٹل جہاں ہم نے درشن کرکے کھانا کھایا، سبھی صاف ہوگئے۔ کتنا خوفناک منظر رہا ہوگا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہاں بچا تو صدیوں پرانا مندر ۔ مندر کے قریب رام باڑے میں ہی ایتوار کی رات بادل پھٹا تھا۔ کیدارناتھ ، رام باڑہ اور گوری کنڈ تباہ ہوگئے ہیں۔ موقعے کی ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویریں رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں۔ چشم دید گواہ کیدارناتھ میں تعینات ردرپریاگ کے پولیس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آر ڈمری نے بتایا کہ مندر کمپلیکس ملبے اور کیچڑ سے بھرا ہوا ہے۔ کمپلیکس میں جہاں جہاں لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ مندر کے گرو گرہ میں پانی کے ساتھ ملبہ گھس گیا، مسلسل بارش اور پانی کے تیز بہاؤ سے مندر کے آس پاس کی زیادہ تر عمارتیں زمیں دوز ہوگئی ہیں۔ 7 کلو میٹر دور گوری کنڈ ،کیدارناتھ پیدل راستے پر واقع رام باڑے کا وجود ختم ہوگیا ہے۔100 سے150 دوکانوں والا یہ رام باڑہ بازار میں ہمیشہ 500 سے600 لوگ گھومتے پھرتے دکھائی پڑتے تھے۔ اس تباہی میں کتنے لوگ مرے ہیں ۔ پورے اتراکھنڈ میں 1 لاکھ سے زیادہ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بہتوں کو پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ ٹی وی پر مکان تاش کے پتوں کی طرح گرتے اور بہتے دیکھ کر بڑا دکھ ہوا۔ بابا کا پرتاپ کہیں یا بابا کا چمتکار کہیں کے سب کچھ تباہ ہونے کے باوجود جوتی لنگ اور صدیوں پرانا گنبد محفوظ ہے۔3597 میٹر اونچائی پر موجود قدیم مندر کیدارناتھ میں شیو لنگ دیش کے 12 جوتی لنگ میں سے ایک ہے۔ قدیم روایتوں کے مطابق آگیات واس کے دوران پانڈوؤں نے بھگوان شنکر کو خوش کرنے کے لئے یہاں تپسیا کی تھی۔ اس دوران انہوں نے 80 فٹ اونچا بھگوان کیدارناتھ کا مندر بنوایاتھا۔ 
جب میں مندر گیا تو وہاں کی بناوٹ دیکھ کر لگا کے یہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ اس کے اندر پانڈوؤں کی مورتیاں لگی ہوئی ہیں۔ اندر لائٹ کم ہے جس سے پتہ چلتا ہے اس کو ہزاروں سال پہلے بنایا گیاتھا اور یہ ایک عجب نمونہ دکھائی پڑتا ہے۔ مندر میں داخل ہوتے ہی میں اس کی بناوٹ کا بیان نہیں کرسکتا۔ یہ محض اسی وقت محسوس کرسکتے ہیں جب صحیح معنوں میں یہاں جاکر لگتا ہے کہ آپ دیو بھومی میں آگئے ہو۔ ایسی روایت ہے کے ست یگ کال کے راج کرنے والے راجہ کیدارناتھ کے نام پر اس عظیم الشان مندر کا نام پڑا۔ اگرچہ شنکر آچاریہ نے کیدارناتھ مندر کو بنوایا اور بدلتے موسم کے سبب مندر کے کپاٹ صرف اپریل اور نومبر مہینے تک شردھالوؤں کے درشن کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ہر سال بھاری تعداد میں شردھالو بھگوان کیدارناتھ کے درشن کرنے کے لئے ملک و بیرون ملک سے آتے ہیں۔ کیدارناتھ یاترا بھارت کے چار بڑے دھام یاتراؤں میں سے ایک ہے۔ منداکنی ندی کے گھاٹ پر بنے اس مندر کے اندر کافی اندھیرا رہتا ہے اور چراغ کے سہارے ہی بھگوان شیو کے درشن ہوتے ہیں۔ 
مندر میں پانچ پانڈوؤں سمیت دروپدی کی بھی مورتیاں ہیں۔ چھ فٹ اونچے چوکور چبوترے پر بنے کیدارناتھ مندر کے باہر صحن میں ندی بیل گاڑی کی شکل میں براجمان ہے۔ اس حادثے کو قدرتی آفت ہی کہا جائے گا جو کلجگ میں بڑھتے کالے کارناموں کا نتیجہ ہے یا ہمارے انتظامات میں کمی کا نتیجہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ہی ہیں۔ دو مہینے پہلے پلاننگ کمیشن نے اتراکھنڈ حکومت کو خبردار کیا تھا کہ سیلاب کے پانی کی ٹھیک ٹھاک نکاسی پر خصوصی توجہ دی جائے اور موجودہ حکومت کی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ اتراکھنڈ میں ندیوں پربنائے جانے والے باند کو لیکر سرکار کوخبردار کیا گیا تھا۔ اس طرح کی تعمیرات ندیوں کی قدرتی انتظام میں رکاوٹ بننے والے ڈیلٹا بننا اور سیلاب کے پانی کی نکاسی کے راستے بند ہوتے ہیں۔
مئی 2013 ء کو بھیجے گئے خط میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ سرکار کو ایسی پالیسی بنانی چاہئے جس سے ندیوں کے نالے کا سسٹم تیار کرنے میں رکاوٹ نہ آئے۔ پیڑوں کی بے تحاشہ کٹائی اور غیر قانونی کھدائی کا دھندہ یہ سب ماحولیات سے چھیڑ چھاڑ ہے۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ دیش میں ہر سطح پرماحولیات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اگر نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ قائم رہتا ہے تو قدرتی آفات مینجمنٹ چاہے کتنا مضبوط ہواس طرح کے حالات سے بچنا مشکل ہوگا جیسا کے اترا کھنڈ اور ہماچل میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہرکوئی اس سے واقف ہے کہ دیش بھر میں چھوٹی بڑی ندیوں کے بہاؤ میں رکاوٹ کی جارہی ہے لیکن کسی بھی سطح پر کوئی ایجنسی پہل نہیں دکھاتی جس سے ندیوں سے ہورہی چھیڑ چھاڑ کو روکا جاسکے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جائے گا کے جو بارش جون کے مہینے میں ہورہی ہے وہ عجب بات نہیں ہے۔جب سے بارش کا ریکارڈ رکھا جارہا ہے تب سے لیکرآج تک کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کے مانسون16 جون سے ہی دیش کے چپے چپے پر اپنی پکڑ بنالے۔ اب سے52 سال پہلے 1961ء میں 2 جون کو ایسا حادثہ ہوا تھا لیکن اس سال بھی مانسون کی آمد کے ساتھ کوئی تباہی نہیں ہوئی تھی۔ پورے خطے کا موسم بدل رہا ہے۔ پورب میں بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ میں مسلسل بارش سے بھاری جان و مال کا نقصان ہوا ہے۔ پڑوسی پاکستان میں 26 جولائی سے شروع ہوکرقریب مہینے بھر چلے سیلاب نے وہاں کے پہاڑی اور ریگستانی علاقوں میں ایسی تباہی مچائی جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اس حادثے میں متاثرہ کنبوں کو ہم کہنا چاہئیں گے کے آپ کے دکھ میں ہم بھی شامل ہیں۔ بھگوان مرنے والوں کی آتماؤں کو شانتی دے۔ اوم نمہ شوائے،ہر ہر مہادیو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟