دیش ڈوب رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہے ہیں

آخر جن بوتل سے باہر آہی گیا ہے دس سال میں بھارت کی معیشت اپنے نچلے سطح پر آگئی ہے۔ روپے کا حال یہ ہے کہ ایک ڈالر کے بدلے 60 روپے کا ریٹ پہنچ گیا ہے۔ مالی برس 2012-13میں دیش کا جی ٹی پی گھٹ کر پانچ فیصدی ہوگیا ہے۔ یہ پانچ سال میں سب سے نچلی سطح پر ہے پندرہ روز پہلے چیف اقتصادی مشیر رگھوناتھ راجن نے تسلی دینے کی کوشش کی کہ روپے کو لے کر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیرخزانہ پی چدمبرم نے معیشت کی صحت کو لے کر بھروسہ جتایا۔ اوراشارے دیئے ہے کہ سرکار جلد ہی اقتصادی اصلاحات کو رفتار دیں گی۔ مگر ڈالر کے مقابلے جس طرح سے روپیہ دھرام سے گرا ہے اس سے سمجھاجاسکتا ہے اقتصادی حالت کتنی خراب ہے کہ محض تین مہینے روپیہ اپنے ریکارڈ کم از کم اپنی سطح پرآگیا ہے۔ کرنسی کے کمزور ہونے کاسیدھا اثر معیشت سے ہوتا ہے اوراس سے بھی کئی زیادہ بھارت کی جنتا پر گرتے روپے کااثر سیدھا کچے تیل کی درآمدات پر ہوتا ہے۔ پیرولیم پروڈکٹس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہے اورپہلے سے ہی مہنگائی کے بوجھ سے مررہی جنتا اور دب جاتی ہے۔ ایسا پچھلے دس سال میں پہلی بار ہوا ہے کہ معیشت کے تینوں ستون منڈی کے شکار ہوئے ہیں یہ ہے مینوپیداوار زراعت اور سروس سیکٹر پیداوار سیکٹر کامطلب ہماری معیشت میں موٹے طور پر صنعتی پیداوار سے کیاجاتا ہے پچھلی مالی سال میں یعنی 2012-13 میں سال 2011-12کے مقابلے اس سیکٹرمیں روپیٹ کر بہ مشکل ایک فیصصدی اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال زرعی سیکٹر کاہے اس میں بھی اضافہ شرح مالی سال 2012-13میں بہ مشکل 2فیصدی رہی اس کے مقابلے 2011-12 میں زرعی سیکٹر خاصی سرخ رو دکھائی پڑی۔ یعنی اضافی شرح ساڑھے تین فیصدی سے زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ معیشت میں عام آدمی کو روزگار مہیا کرانے والے ان دونوں سیکٹروں کی پتلی حالت نے سروس سیکٹر کوبھی ہانپنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کی اضافی شرح بھی سال 2012-13کے درمیان پھسل کر رہے گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا آخر کیوں ہوا۔ معیشت کی درگتی کے سرکاری اسباب تیل کے بڑھتے دام اوردیش میں ضروری اجناس میں کی پیداوار مانگ کے مطابق نہ ہونا عالمی اقتصادی منڈی کو گنا جارہے ہیں۔ لیکن کیا ہمارا نظام بدانتظامی کے الزام سے بچ سکتا ہے؟شاید نہیں۔ پچھلی ڈھائی میں لہلاتی ہندوستانی معیشت سے مدہوش ہو کر این ڈی اے اور یوپی اے حکومتوں نے دیش کے انتظامی ڈھانچے میں جو کھلواڑکیاہے ویسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اس سے پیدا ہوئے کوڑھ میں کھاج دراصل فضول خرچی اور کرپشن نے کردی ہے۔ دیش کی بڑی سیاسی پارٹی عام آدمی کو پختہ روزگار دینے کے بجائے لیپ ٹاپ ، ٹی وی، منگل سوتر وظیفہ دے کر ووٹ بٹورنے میں لگے ہوئے ہے۔ انہیں سبھی وجوہات سے دیش کا مالی انتظام غوطے کھارہا ہے۔ روپیہ بار بار ڈوب رہا ہے۔ اور شیئر بازار پر سٹوری کاقبضہ ہے اوربینکوں پر بھاری مالی دباؤ ہے۔ پریشان ہوتے ہوئے بھی لوگ لبھاون سرکاری پالیسیوں پر زبردستی عمل کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ مہنگائی بے لگام ہے اوراس کی شرح آسمان چھو رہی ہے۔صنعتی ترقی ٹھپ ہے اب دیکھناہے کہ چناؤ کے اس موسم میں مرکز ریاستی حکومتیں دیش کی معیشت کے بکھرے لوازمے کو بٹور کر اسے پھر سے پٹری پر لانے کے لئے واقع کوئی ٹھوس قدم اٹھا پائے گی یا ووٹوں کے چکر میں بھارت روپی روم کو جلنے کو چھوڑ کر ہمارے نیتا روپی نیروں اسی طرح چین سے بانسری بجاتے رہے گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟