ایران پھر تاریخی موڑ پر کھڑا ہوا!

ایران کے چناؤنتائج تقریباً ویسے آئے ہیں جیسا کے پہلے ہی امیدکی جارہی تھی۔ نتائج سے صاف ہے کہ وہاں کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ صدر کے عہدے کے لئے ہوئے چناؤ میں 8 سال بعد ایک بار پھر اصلاح پسندوں کو کامیابی ملی ہے۔ حسن روہانی ایران کے نئے صدر ہوں گے۔ 50 فیصدی سے زائد ووٹ پاکر وہ شرط انہوں نے پوری کرلی ہے اور پہلے دور میں یہ ٹارگیٹ پورا کرلیا ہے۔ صدر کے طور پر مسلسل دو بار اپنی میعاد پوری کر چکے احمدی نژاد آئینی بندش کے سبب اس بار چناؤ نہیں لڑ سکتے تھے لیکن ان کی رخصتی ایران کی سپریم ایڈمنسٹریٹو عہدے پر فائض شخصیت کی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک دور کی رخصتی ہے جس میں ایران اپنے متنازعہ نیوکلیائی پروگرام کے سبب مغربی دنیا کے نشانے پر ہے۔ دوسرے پچھلے کچھ برسوں میں ایران میں شہری زیادہ تر مسلسل بندشوں میں رہے ہیں۔ اصلاح پسندوں کی جیت کے جو مطلب نکلتے ہیں پہلا کے ایران کے زیادہ تر لوگ باہری دنیا سے رشتے بہتر بنانے کے حق میں ہیں اور دوسرا وہ چاہتے ہیں کہ شہری آزادی پر لگی پابندیاں ہٹیں۔ ایران ایک بار پھر تاریخی موڑ پر کھڑا ہوگیا ہے۔ اصلاح پسند لیڈر حسن روحانی کے صدر منتخب ہونے کے بعد دیش میں زبردست خوشی کا ماحول پایاجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں سڑکوں پر لوگ خوشی میں جھومتے دیکھے گئے وہیں ایرانی شیئر اور کرنسی مارکیٹ میں تاریخی اچھال دیکھا گیا۔ ایتوار دیر رات جیسے ہی روحانی کی کامیابی کا اعلان ہوا تو ان کے ہزاروں حمایتی سڑکوں پر اتر آئے۔ یہ سلسلہ اتنے شباب پر دکھائی دیا لوگ جگہ جگہ روحانی زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئے۔ مغربی میڈیا کی مانیں تو ایران کی عوام نے روحانی کی شکل میں تبدیلی کو اپنی حمایت دی ہے۔ حسن روحانی نے اپنی کامیابی کے بعد یہ رد عمل دیا ہے کہ علم اصلاح پسندی اور ترقی کی جیت کے ساتھ ملک میں کٹرپسندی اور ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لوگوں کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے۔ جنتا میں جس طرح کا جوش پیدا ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے ملک کے عوام اپنے مستقبل کو لیکر کتنی امید لگائے ہوئے ہیں۔ وہیں حسن روحانی کی کامیابی سے مغربی دنیا نے راحت کی سانس لی ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے چناؤ نتائج کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام پر پھر سے بات چیت شروع ہونے کی امید جتائی ہے۔ وہیں امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے نو منتخب اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ہم ایران کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور امریکہ کو امید ہے کہ نئی حکومت بین الاقوامی قوانین کی تعمیل کرے گی تاکہ اسکے جوہری پروگرام کو لیکر عالمی برادری کی تشویشات کو دور کیا جاسکے۔ حالانکہ اصلاح پسند روحانی کی جیت کے بعد اسرائیل اور مغربی دیش اب بھی شک و شبہات ظاہر کررہے ہیں۔ دراصل انہیں دیش کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو لیکر خدشہ ہے ۔ مغربی دنیا کولگتا ہے کہ متنازعہ جوہری پروگرام کو لیکر روحانی خاص بہتری نہیں لائیں گے۔ نیوکلیائی پالیسی خامنہ ای طے کریں گے نہ کے روحانی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟