کانگریس تنظیم اور سرکار دونوں میں راہل گاندھی کی چھاپ

کانگریس نے تنظیم اور سرکار میں ردوبدل کرکے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب آنے والے اسمبلی انتخابات اور 2014ء میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کے لئے تیار ہے اور پارٹی و حکومت دونوں کو سیمی فائنل اور فائنل کے لئے خود کو تیار کررہی ہے کیونکہ عام چناؤ میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ اس لئے فطری ہی ہے کہ کانگریس اور حکومت میں ہوئی ردوبدل کو چناوی تیاری سے جوڑیں۔ ان دونوں ردوبدل اور پانچ مہینے پہلے راہل کو پارٹی کا نائب صدر بنانا اور تنظیم میں ان کی پسندیدہ ٹیم بنا کر پارٹی نے صاف کردیا ہے کہ 2014ء کا لوک سبھا چناؤ راہل گاندھی کی ہی رہنمائی میں لڑا جائے گا۔ دونوں کے وقت میں ایک ہی سندیش ہے کے ایسے وقت جب بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا والے این ڈی اے کا کنبہ بکھر رہا ہے اور وہ اندرونی رسہ کشی اور عدم استحکام کا مورچہ بن گیا ہے۔ کانگریس کی رہنمائی والی یوپی اے حکومت متحد اور بلا تنازعہ روک ٹوک چل رہی ہے۔ کانگریس نے یہ بھی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسکی رہنمائی والا یوپی اے کے تئیں حکومت مطمئن ہوسکی ہے۔ تازہ تنظیمی ردوبدل میں راہل گاندھی کی چھاپ صاف دکھائی پڑتی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی اہم تبدیلی نہیں ہے لیکن یہ شاید پہلی بار ہے کے پارٹی میں ایک شخص ایک عہدے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ دوسرے تنظیم سے لیکر کانگریس ورکنگ کمیٹی تک پارٹی کا چہرہ پہلے کی بہ نسبت نوجوان دکھائی پڑتا ہے لیکن جوتر ادتیہ سندھیہ اور سچن پائلٹ ،جتن پرساد،جتندر سنگھ جیسے نوجوان لیڈروں کو پارٹی تنظیم کے کام کاج سے نہیں جوڑا گیا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ تجربہ کار اور نوجوان سیاستدانوں کا تال میل بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ چناؤ کی تشویش کا ہی اثر ہوگا کہ طویل عرصے بعد پارٹی میں12 جنرل سکریٹری بنائے گئے ہیں۔سکریٹریوں کی یہ شکایت دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انہیں عہدہ تو دے دیا گیا لیکن زیادہ تر کو ریاست کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ ایک شخص ایک عہدے کے ساتھ تنظیم اور وزیر کے عہدے کو الگ کردیا گیا ہے تاکہ چناؤ تقسیم کے نظریئے سے نہ لڑا جائے۔ مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزادکو آندھرا پردیش کی ذمہ داری سے نجات دینے کے پیچھے یہ ہی نظریہ ہے کہ وہ آندھرا کے مسئلے کے لئے وقت نہیں نکال پارہے تھے۔ جہاں تلنگانہ اور جگموہن ریڈی کانگریس کے لئے بڑی چنوتی بن کر کھڑے ہیں۔ یہاں کی ذمہ داری دگوجے سنگھ کو دیکر پارٹی لیڈر شپ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے انہیں اترپردیش سے ہٹا دیاگیا جہاں وہ فیل ہوگئے تھے دوسرے اب آپ ان دونوں چنوتیوں پر خاص توجہ دیں کے اترپردیش میں راہل گاندھی کے قریبی گجرات کے مدوسودن مستری کو ذمہ داری دینا بھاجپا کی طرف سے اترپردیش کا انچارج امت شاہ کا جواب ہے۔ اجے ماکن کی تیز طرار ساکھ کو دیکھتے ہوئے انہیں میڈیا انچارج بنانے کی اکیلی وجہ نہیں ہے۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کو بلا تنازعہ لیڈر رہنے دینے کے لئے ماکن کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے۔ جناردن دویدی نے میڈیاسیل لیکر بھی ان میں ہائی کمان کا بھروسہ قائم رہا۔ امبیکا سونی بھی کانگریس صدر سونیا گاندھی کی نزدیکی ہیں اور رہیں گی۔ کیبنٹ توسیع میں ان دونوں ریاستوں کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے جہاں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ شیش رام اولا اور گرجا ویاس راجستھان سے ہیں۔ ملیکا ارجن کھڑگے کو کرناٹک میں مکھیہ منتری عہدے کی دعویداری نہ پیش کرنے کے عوض میں انعام کے طور پر ریل وزارت دے دی گئی ہے۔ تین نئے وزرا میں ایم نچپن کو تجارت اور صنعت وزارت دی گئی ہے وہ تاملناڈو سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں گھوٹالوں پر گھوٹالوں کی بحث سے دونوں سرکار اور پارٹی کی ساکھ خراب ہوتی رہی ہے۔ پچھلے دو برسوں میں ایسا کوئی اجلاس نہیں گیا جس میں بھاری ہنگامہ نہ ہو۔ ٹو جی اسپیکٹرم، کامن ویلتھ گیم، آدرش سوسائٹی گھوٹالہ، ہیلی کاپٹر گھوٹالہ، کوئلہ گھوٹالہ اور ریلوے رشوت جیسے معاملوں میں کانگریس کی فضیحت ہوتی رہی ہے۔ اسی ماحول میں بابا رام دیو ، انا ہزارے جیسے سرگرم غیر سیاسی لیڈروں نے بھی کرپشن کے خلاف مہم چلائی۔ اروند کجریوال تو اب سیاست میں اتر چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرپشن کے اشو پر کانگریس کو کتنا جھٹکا لگا ہے؟ حالانکہ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کو لگتا ہے کہ بھارت کی جنتا کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے وہ سال چھ مہینے میں ضروری سے ضروری اشوز کو بھلادیتی ہے۔بہرحال یہ ضرور کہا جائے گا کہ راہل گاندھی کی رہنمائی میں تنظیم اور سرکار دونوں میں نئے رنگ بھرنے کے ذریعے کچھ نیا پن کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟