راشٹرپتی نے ایک جھٹکے میں سبھی رحم کی اپیلوں کو نپٹایا

بصد احترام جناب پرنب مکھرجی کی انتظامی صلاحیت کے سبھی قائل ہیں۔ جب وہ منموہن سنگھ حکومت میں تھے تب انہیں سرکار و کانگریس پارٹی کا ’سنکٹ موچک‘ یوں ہی نہیں کہا جاتا تھا۔ اب وہ صدر بن گئے ہیں۔ چستی پھرتی سے رائے سینا ہلس (راشٹرپتی بھون) میں بھی کام کررہے ہیں۔ صدر بننے کے بعد بھی ان کی تیزی میں کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے ایک جھٹکے میں 9 لوگوں کی رحم کی اپیلوں کو نپٹادیا۔ صدر کے پاس 7 رحم کی اپیلیں آئیں تھیں ان میں سے5 کو پھانسی کی سزا برقرار رکھی جبکہ 2 قصورواروں کی پھانسی کو مشقت عمر قید میں بدل دیا ہے۔انہیں عمر بھر جیل میں رہنا ہوگا۔ جن 5 قصورواروں کی پھانسی برقرار رکھی گئی ہے ان میں ہریانہ کا دھرم پال سب سے پہلے پھانسی پر لٹکے گا۔ وہ فی الحال روہتک جیل میں بند ہے۔ آبروریزی کے ملزم دھرم پال نے پیرول پر رہا ہونے کے بعد متاثرہ لڑکی کے خاندان کے 5 افراد کو مار ڈالا تھا۔ پچھلے سات سال سے دھرم پال کی رحم کی اپیل پر فیصلہ لٹکا ہوا تھا۔ محترم صدر نے آتے ہی اس کا نپٹارہ کردیا۔ صدر کے ذریعے ایک دہائی سے امبالہ جیل میں بند سابق ممبر اسمبلی ریلو رام پنیہ کی بیٹی سونیا اور داماد سنجیو کی رحم کی اپیل خارج کردئے جانے کے بعد دیش میں یہ پہلا موقعہ ہوگا جبکہ کسی خاتون کو قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔سونیا اور اس کے شوہر سنجیو نے 23 اگست2001ء کو حصار میں اپنے سابق ممبر اسمبلی والد ریلو رام پنیہ کی جائیداد ہڑپنے کے لئے اپنے ہی خاندان کے 8 لوگوں کو بے رحمی سے مار ڈالا تھا جس میں معصوم بچے بھی تھے۔ اب صدر کے پاس کوئی رحم کی اپیل نہیں ہے۔ 9/11 کے آتنک وادی اجمل عامر قصاب اور پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گورو کی رحم کی اپیل پہلے ہی خارج کرچکے تھے اور انہیں پھانسی بھی دی جاچکی ہے۔ رحم کی عرضی نامنظور ہونے کے بعد پھانسی کی سزا پائے شخص کے بچ جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر ان سب کو پھانسی دے دی جاتی ہے توتاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا جب اتنے لوگوں کو اتنے کم وقت میں پھانسی دی گئی ہے۔ یہ صحیح ہے موت کی سزا بیشک بہت اذیت ناک ہوتی ہے لیکن موت کے سائے میں بے یقینی کے درمیان لٹکے رہنا بھی بہت بڑی اذیت ہے۔ بھارت میں 1995ء میں ایک شخص کو پھانسی دی گئی تھی اور 2004ء میں ایک شخص کو اس کے بعد اس سال قصاب اور افضل گورو کو پھانسی دی گئی۔ ہر وقت بھارت میں قریب500 لوگ مختلف جیلوں میں ایسے ہوتے ہیں جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہوتی ہے لیکن وہ کبھی کبھار پھانسی کے پھندے پر پہنچ پاتا ہے۔ اس سال شاید یہ صورتحال بدلے گی۔ ہوسکتا ہے یہ سال کئی پھانسیوں کے لئے جانا جائے گا۔ پھانسی کی سزا پر تعمیل کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ زیادہ تر جیلوں میں اس کا انتظام نہیں ہے۔ صدر پرنب مکھرجی نے تمام رحم کی عرضیوں پر غیر یقینی صورتحال کو ختم کردیا ہے اور ان کی رحم کی عرضیاں نامنظور ہوگئی ہیں۔ ان کے سامنے بھی پوزیشن صاف ہوجائے گی کہ انہیں باقی بچی عمر جیل میں کاٹنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟