آئرن لیڈی مارگریٹ تھیئچر کا جانا!

آئرن لیڈی کے نام سے مشہور برطانیہ کی پہلی لیڈی وزیر اعظم رہی مارگریٹ تھیئچر کا پیر کو دل کا دورہ پڑنے سے دیہانت ہوگیا۔ دماغی بیماری سے متاثر تھیئچر 87 برس کی تھیں۔ بلاشبہ تھیئچر20 ویں صدی کی سب سے طاقتور شخصیتوں میں سے ایک تھیں، ساتھ ہی اس صدی میں برطانیہ کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہیں۔یوں تو محترمہ تھیئچر پچھلے کئی برسوں سے سرگرم سیاست سے الگ تھیں لیکن انہوں نے اپنے دیش کی سیاست کے ساتھ ہی عالمی سیاست پر جو چھاپ چھوڑی ہے اس کو بھلانا مشکل ہوگا۔ حقیقت میں سرد جنگ کی آخری دہائی کے جن لیڈروں کو تاریخ میں یاد کیا جائے گا ان میں مارگریٹ تھیئچر بھی ہوں گی جنہوں نے امریکہ اور سوویت روس کی طاقت پر لیڈر شپ کے درمیان اپنی ایک عالمی ساکھ بنائی تھی۔ گھریلو سطح پر اپنے سیاسی حریفوں سے لیکر بین الاقوامی سطح کے اپنے عالمی مخالفوں تک کا جس سختی سے انہوں نے سامنا کیا، مزدور یونینوں کو تھوڑنے سے لیکر مہنگائی سے نمٹنے تک جیسی لیڈرشپ انہوں نے دی، اس کی وجہ سے ہی انہیں آئرن لیڈی (آہنی خاتون) تک کہا گیا۔ اپنے سخت برتاؤ اور ضد کے لئے بیشک وزیر اعظم بنیں تو عوام میں ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ اس بات سے کوئی انکار شاید ہی کر سکے کہ انہوں نے جدید دنیا بنانے میں جتنا بڑا رول نبھایا ان کی برابری اور کسی لیڈر سے نہیں کی جاسکتی۔ نظریاتی طور پر آزاد خیال تھیں اور معیشت اور پرائیویٹائزیشن اور نیچی سود کی شرحیں، سرکاری مدد کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے تصور کو فروغ دیا۔ اس طرح کی ساری پالیسیوں کی بنیاد مارگریٹ تھیئچر نے ہی رکھی تھی۔تھیئچر1979ء میں جب برسر اقتدار آئیں تب برطانیہ کی ساکھ پوری دنیا میں سب سے اونچی اور سب سے طویل چلنے والی ہڑتالوں کا دور تھا لیکن تھیئچر نے آہستہ آہستہ برطانیہ کی بڑی ٹریڈیونینوں کو توڑ کر رکھ دیا۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد کچھ سرکاری کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا قدم ہو یا فوک لینڈ پر قبضے کے لئے ارجنٹینا کو نکالنے کے لئے فوج بھیجنے کا فیصلہ یا آئرلینڈ کا معاملہ، انہوں نے ہمیشہ عزم اور دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ کہتے ہیں سیاست غیر محدود امکانات کا کھیل ہے جسے مارگریٹ تھیئچر نے سچ کر کے دکھایا۔ وہ نہ صرف برطانیہ کی پہلی وزیر اعظم بنیں بلکہ لگاتار تین بڑے عہدوں پر چنی جانے والی20 ویں صدی کی اپنے دیش کی پہلی لیڈر بھی ثابت ہوئیں۔ کچھ تضادات اور اندرونی اختلافات کے ساتھ یہ اتفاق ہی ہے کہ مارگریٹ تھیئچر بھارت کی سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کی طرح کی قد آور لیڈر تھیں جن کی وہ خود بھی تعریف کیا کرتی تھیں۔1984ء میں جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو تھیئچر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا میں محترمہ اندرا گاندھی کو بہت یاد کروں گی۔ دونوں لیڈروں میں گہری دوستی بھی تھی وہ ان کی آخری رسوم میں شامل ہوئیں تھیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کمزور شخص ہمیشہ اچھے موقعوں کا انتظارکرتے رہتے ہیں جبکہ وہ بے لوث شخص رہے ہوں۔مارگریٹ تھیئچر اسی زمرے میں آتی تھیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟