راہل گاندھی کا کنفیوژ، بے سمت مایوسی بھراخطاب

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی صنعتی انجمن سی آئی آئی کے سالانہ اجلاس میں کئی گئی تقریرکو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ یہ راہل گاندھی کا گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو جواب ہوگا لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ مجھے تو راہل گاندھی کی تقریر سے مایوسی ہی ہوئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کیا سی سی آئی کا اسٹیج ایسی سیاسی تقریر کے لئے صحیح اسٹیج تھا؟ آپ غریبوں کی بات دیش کے سب سے امیروں کے اسٹیج سے کررہے ہوں؟ پھر آپ تقریر سے کس کو سندیش دے رہے تھے ، اپنی سرکار کو یا پھر اپنی پارٹی کو؟ اگر آج کانگریس فیل ہورہی ہے تو اس کی ذمہ دار نہ تو اپوزیشن ہے اور نہ ہی عوام۔ آزادی کے 65 سال میں کانگریس پارٹی نے56 سال حکومت کی ہے۔ کل13 برس ہی غیرکانگریسی حکومتوں کا عہد رہا۔ اگر خامیاں ہیں تو وہ بنیادی طور پر کانگریس عہد کی ہیں۔ راہل گاندھی نے جو تقریر کی وہ محض ایک ویژن ہی مانی جاسکتی ہے۔ ویژن ہونا آدھی بات ہے لیکن اکیلے خواب دیکھنا اور سبز باغ دکھانے سے کام نہیں چلتا۔ آپ نے جن مسائل کو رکھا ہے ان کو صحیح کیسے کیا جائے گا ، اس کے بارے میں تو ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ آپ نے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ ہاں بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر آپ ساتھ ساتھ مسائل کا حل بھی رکھتے۔ پھر آپ نے جو کہا اگر میں اسے ٹھیک سے سمجھ سکا ہوں تو آپ پورے پالیٹیکل سسٹم کو ہی بدلنا چاہتے ہیں۔لیکن یہ تلخ سچائی ہوسکتی ہے کے دیش کے سیاسی نظام پانچ ہزار ممبران اسمبلی و ممبران پارلیمنٹ چلا رہے ہیں لیکن اس بنیاد پر پارلیمانی نظام و جمہوریت کو مسترد نہیں کیا جاسکتا بلکہ راہل گاندھی سے پوچھنا چاہئے کہ پچھلے9 برسوں سے اقتدار میں ہونے کے باوجود ان کی سرکار و پارٹی کو عام آدمی کے مفاد میں قدم اٹھانے سے کس نے روکا ہے؟وہ عام آدمی کے ہاتھ میں طاقت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ ان کی حکومت سہولیتیں دے کر چناوی فائدہ اٹھانے پر ہی زیادہ بھروسہ کرتی ہے۔ راہل نے ترقی میںآرہی رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ان کا حل ہونا چاہئے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کے کانگریس کی قیادت والی مرکزی سرکار پچھلے9 برسوں کے دوران وہ سب کیوں نہیں کرسکی؟ نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ وہ خود بھی اس پوزیشن میں تو تھی ہی کے سرکار سے ان کا حل نکلوا لے۔ راہل گاندھی کی تقریر انہی کی لائنوں میں تھی جو راجیو گاندھی نے برسوں پہلے ممبئی میں کی تھی۔ راجیو نے تو کانگریس پارٹی کو اقتدار کے دلالوں کی پارٹی تک کہہ دیا تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنے برسوں میں ان کی پارٹی میں کیا بہتری آئی ہے؟ کیا وہ اور ان کی ماتا شری اس پوزیشن میں نہیں تھیں کے ان کی پارٹی میں آئی گراوٹ کو روک سکیں؟ ایسی لوک لبھاونی باتوں سے ترقی سے محروم لوگوں کو متاثر تو کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں کوئی راحت نہیں دی جاسکتی۔ کانگریس کے کئی سرکردہ لیڈر راہل بنام مودی لڑائی بتانے سے چوکتے نہیں لیکن بنیادی فرق کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ نریندر مودی جارحانہ انداز میں خیالی باتیں کرتے ہیں اور دیش کو آگے کیسے بڑھایا جائے اس کی بات نہیں کرتے ، وہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے کردکھایا ہے۔ نریندر مودی کے قول اور فعل میں فرق نہیں ہے کیونکہ وہ تیسری بار اسمبلی چناؤ جیت چکے ہیں۔ راہل تین ریاستوں کے چناؤ ہار چکے ہیں۔مودی کے نشانے پر مرکزی سرکار اور کانگریس پارٹی ہے جبکہ راہل کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ انہیں اپنی بات پرکھرا اترنا ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنی پارٹی اور سرکار کو بچانا بھی ہے۔ راہل بدقسمتی سے آج جس جگہ پر ہیں وہاں سے وہ اقتدار کی سیاست کی برائیوں کو آسانی سے ختم نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ تو کانگریس کے اس چلن کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے بھی نہیں دکھائی دئے جن میں اسمبلی چناؤ کے بعد باہری آدمی کو وزیر اعلی بنادیا جاتا ہے۔ راہل نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں کہیں مہنگائی ،کرپشن، دہشت گردی، آتنک واد یعنی عام آدمی کو متاثر کرنے والے اشوز کی کوئی بات نہیں کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریئے میں اور موجودہ وزیرا عظم منموہن سنگھ کے نظریئے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ راہل نے کہا پریس والے مجھ سے پوچھتے ہیں کے آپ شادی کب کررہے ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کے باس آپ پردھان منتری کب بن رہے ہو، کئی کہتے ہیں آپ پی ایم نہیں بن پاؤ گے۔ یہ سب غیر ضروری سوالات ہیں، ہوائی باتیں ہیں ۔اصل بات یہ ہی ہے کہ 1 ارب لوگوں کو خوشحال کیسے بنایا جائے تاکہ ان کے مسائل دور ہوں۔ ہم شادی کی بات سے راہل سے متفق ہیں۔ یہ ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہے اس میں کوئی سوال جواب نہیں ہوسکتا لیکن وزیر اعظم بننا یا نہ بننا یہ تو اہم ہے۔
آپ کہتے ہیں پردھان منتری کی بات نہ کریں تو براہ کرم بتائیں کے اگر آپ وزیر اعظم بننا نہیں چاہتے تو ان مسائل کو کون دور کرے گا؟ جنتا ؟ اگر جنتا ہی ان کو حل کرنے میں اہل ہوتی تو دیش میں نہ تو ممبر پارلیمنٹ کی ضرورت ہوتی نہ اسمبلیوں سے لیکر گرام پنچایتوں کی ضرورت رہتی۔ سوال یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ خود راہل گاندھی بطور ایم پی پارلیمنٹ میں اب تک ان کا رول کیا رہا ہے اور وہ سوائے کلوتی معاملے میں ہم نے راہل کو ایک ہی اشو پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ کانگریسیوں کی طرف سے راہل کی تقریر کی چاہے جتنی واہ واہی کی جارہی ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کے خطاب میں کنفیوژن اور دیش کو موجودہ چیلنجوں سے نکالنے اور ایک نئے دور میں لے جانے کی کہیں بھی کوئی جھلک نہیں دکھائی دی۔ اب ان کی تقریر کا پارٹی سطح پر جیسے بچاؤ کیا جارہا ہے وہ نہرو گاندھی پریوار کو رہنما سمجھنے کی پارٹی کی ذہنیت کی ہی مثال ہے۔ ترقی اور معیشت کے نام پر لائیو(سیدھا) ٹیلی کاسٹ جو سیاسی بازی گری بحث کے مرکز میں لائی جارہی ہے اس سے شاید ہی کوئی سمت مل سکتی ہو۔ جیسا کے میں نے کہا کہ ہم راہل کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہماری شبھ کامنائیں بھی ان کے ساتھ ہیں لیکن سی آئی آئی میں جو تقریر کی وہ مایوس کن تھی اور امیدوں پر کہیں کھری نہیں اترتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!