کیا سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے رشتے ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں؟

سماجوادی پارٹی اور کانگریس کی آپس میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ ملائم سنگھ نے پچھلے دنوں کانگریس کو دھوکے بازوں کی پارٹی سے لیکر سی بی آئی کے ذریعے اقتدار میں بنے رہنے کا الزام لگایا۔ اب کانگریس کی باری ہے۔ بینی پرساد ورما نے تو ساری حدیں پار کردی ہیں اور انہوں نے نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ اب وزیر مواصلات کپل سبل نے ایتوار کو سپا چیف ملائم سنگھ کو کھلی چنوتی دے دی ہے کہ اگر ہمت ہے تو وہ سرکار گرا کر دکھائیں۔ حالانکہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ ملائم سنگھ کی طرف تھا۔ سبل کے اس بیان کے بعد سپا نیتا رام آسرے کشواہا نے کہا کہ سبل کی اوقات ہی کیا ہے؟ ادھر ملائم سنگھ نے مرکزی وزیر کوئلہ سری پرکاش جیسوال کے حالیہ بیان کو سنجیدگی سے لیا ہے جس میں انہوں نے پردیش سرکار پر فضول خرچی کا الزام لگایا ہے۔ ان کے بیان کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے ملائم سنگھ نے کہا مرکزی حکومت کی جانب سے پردیش سرکار کو دی جارہی اقتصادی مدد کسی طرح سے خیرات نہیں بلکہ ایک یہ طرح سے ریاستوں کا پیسہ ہے جس پر ان کا حق ہے۔ سپا اس وقت چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی چیف مایاوتی نے کہا دیش میں لوک سبھا چناؤ وقت سے پہلے نہیں ہوسکتے۔ اس کے لئے بسپا پوری طرح تیار ہے۔ بسپا کے سینئر لیڈر نسیم الدین صدیقی نے اترپردیش کی سپا سرکار پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ اکھلیش یادو کو محض آدھا وزیر اعلی مانا جائے کیونکہ اس وقت صوبے میں ایک نہیں ساڑھے چار وزیر اعلی ہیں۔بسپا سکریٹری جنرل نے انہیں گنایا۔ ملائم، رام گوپال یادو، شری پال یادو اور اعظم خاں کو چار اور اکھلیش یادو کو آدھا وزیر اعلی بتایا۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور لوک دل بھی آمنے سامنے آگئے ہیں۔ سپا نے لوک دل صدر اجیت سنگھ پر تنقید کی اور اگلے ہی دن اس کے قومی جنرل سکریٹری جے انت چودھری نے حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اترپردیش میں قانون و انتظام پوری طرح بگڑ چکا ہے اور غیر سماجی عناصر دن دھاڑے واردات میں لگے ہوئے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھے اور اقتدار سے قربت رکھنے والے کئی لوگ گھناونے جرائم میں ملوث ہیں۔ خود وزیر اعلی اکھلیش یادو پر بھروسے کا حال یہ ہے کہ نوئیڈا سے وابستہ 3300 کروڑ روپے کی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے اکھلیش نوئیڈا جانے سے بچے اور انہوں نے لکھنؤ سے اپنے سرکاری گھر سے ہی سنگ بنیاد کی خانہ پوری کردی۔ اتفاق ہے لیکن یہ اندھ وشواس بن چکا ہے کہ وزیر اعلی رہتے جو بھی نوئیڈا جاتا ہے اس کی کرسی چلی جاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے راجناتھ سنگھ نے 2001 ء میں وزیر اعلی کی شکل میں نوئیڈا کے ایک فلائی اوور کا افتتاح دہلی سے کیا تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپا اور کانگریس کا یہ مہا یدھ کہاں جا کر رکے گا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ دونوں کے درمیان چل رہی رسہ کشی کو دیکھتے ہوئے بھلے ہی لگ رہا ہو کے دونوں کے رشتے ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ آنے والے لوک سبھا چناؤ کی مجبوری کے چلتے دونوں پارٹیوں کی آپسی کھینچ تان بدستور جاری رہے گی۔ دراصل سپا یوپی ا ے سرکار کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتی ساتھ ہی وہ مرکزی سرکار سے حمایت بھی واپس نہیں لینا چاہتی لیکن اس کے لئے صحیح وقت اور صحیح اشو ابھی نہیں مل رہا ہے۔ یہ ہی نہیں شاید وہ ابھی اپنے سرپر یوپی اے سرکار کو گرانے کا داغ مول لینا نہیں چاہتی اسی لئے فی الحال کانگریس کے خلاف تلخ رشتے کو قائم رکھنے میں ہی فائدہ دیکھ رہی ہے۔ یوپی اے سرکار پر دباؤ بنانے میں لگے ملائم سنگھ یادو کے بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں کہیں خودہی الجھن میں نہ پھنس جائیں۔دراصل لیفٹ پارٹیوں نے گرانٹ مطالبات پر کٹوتی کا پرستاؤ لانے کا فیصلہ کر دو کشتیوں میں سوار ملائم کو پوری طرح اپنے پالے میں لانے کی حکمت عملی بنائی۔ ان کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی کے سبب ملائم سرکار کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوں گے، ورنہ غیر یوپی اے ، غیر این ڈی اے کی حکمت عملی میں پوری طرح الگ تھلگ پڑجائیں گے۔ دیکھیں آگے کیا ہوتاہے۔ معاملہ آہستہ آہستہ کائمکس کی طرف بڑھ رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟