ممتا پر حملہ پہلا نہیں ،دہلی میں نیتاؤں پر بڑھ رہے حملے

دہلی میں منگلوار پر مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور ان کے وزیر خزانہ سے بدسلوکی کا واقع اکیلا نہیں ہے ۔ حال ہی میں راجدھانی میں کئی لیڈروں کے ساتھ ایسی حرکات ہوچکی ہیں۔اس سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ ، وزیر مواصلات ، وزیر زراعت، دہلی کی وزیراعلی مظاہرین اور لوگوں کے غصے اور ہاتھا پائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ نئی دہلی میں پلاننگ کمیشن کے گیٹ پر مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور ان کے وزرا کے ساتھ سی پی ایم کی طلبا ونگ ایس ایف آئی سے جڑے مظاہرین کا پرتشدد اور شرمناک برتاؤ قابل مذمت تو ہے ہی پارلیمنٹ کے اتنے پاس اتنہائی محفوظ زون میں ایسی واردات کا ہونا سکیورٹی نظام پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ عام طور پر ایسے علاقے میں دھرنا اور مظاہرے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس انتہائی محفوظ زون میں مظاہرین کو کیسے پہنچنے دیا گیا؟ وہاں پولیس کی چوکسی و سکیورٹی سسٹم اور زیادہ چست درست کیوں نہیں کیا گیا؟ جمہوریت میں احتجاجی مظاہروں کا حق تو ضروری ہے لیکن غنڈہ گردی کا قطعی نہیں۔جس طرح ایک خاتون وزیر اعلی ممتا بنرجی اور ان کے 65 سالہ وزیر مالیات ڈاکٹر امت مترا کا کرتا پھاڑ ڈالا گیا ، یہ احتجاج نہیں بلکہ اس طرح سے جمہوریت کے ساتھ زیادتی ہے۔ ممتا اس حادثے سے اس قدر ناراض ہیں کہ منگل کوانہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنی ملاقات تک ٹال دی اور اگلے ہی دن وزیر خزانہ سے طے ملاقات کو بھی منسوخ کرکے کولکتہ چلی گئیں۔ دہلی سے کولکتہ لوٹتے ہی ممتا کو سانس لینے میں دقت اور گھبراہٹ اور درد کی شکایت کے بعد ہسپتال میں بھرتی کرایاگیا جہاں ڈاکٹروں کی ای ٹیم ان کی صحت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ممتا بنرجی اور امت مترا سے بدسلوکی کے واقع کے معاملے میں جارحانہ تیور اپنا رہی مارکسوادی پارٹی بدھ کو بیک فٹ پر آگئی۔ گورنر ایم کے نارائنن کے تنازعے میں کودنے سے واردات کو مارکسوادی پارٹی کو منظم حملہ قراردینے سے دباؤ میں آئی پارٹی کے پولٹ بیورو کو بیان جاری کر نہ صرف واقعے کی مذمت کرنی پڑی بلکہ اس کی جانچ کا بھی اعلان کیا۔ مسٹر نارائنن کا کہنا ہے کہ ممتا پر حملہ غیر متوقعہ ہے۔ یہ جمہوریت کے اصولوں پر دھبہ ہے۔ 
سیاسی پس منظرکو تشدد کی طرف مائل کرنے کا اشارہ کرتا ہے۔ دراصل ایس ایف آئی کے ورکر اپنے ایک لیڈرسدیپ گپت کی مبینہ طور پر پولیس حراست میں ہوئی موت سے ناراض ہوں گے لیکن ایک وزیر اعلی کے خلاف اس طرح کے پرتشدد مظاہرے کو جمہوری نہیں مانا جاسکتا۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ واردات ترنمول کانگریس اور لیفٹ فرنٹ کے درمیان پچھلے کچھ مہینے سے جاری ٹکراؤ کا نتیجہ ہے جو اب دیش کی راجدھانی تک پہنچ گیا ہے۔ دہلی کی واردات کے بعداس کے رد عمل میں مغربی بنگال میں واویلا مچا ہوا ہے۔ وہاں جگہ جگہ ایس ایف آئی اور ترنمول ورکروں کے درمیان خونی جھڑپیں ہورہی ہیں۔ یہ سلسلہ فوراً روکے جانے کی ضرورت ہے سبھی سیاسی پارٹیوں کو اس واقعہ سے سبق ضرور لینا چاہئے اگر سیاسی پارٹیوں نے وقت اور جمہوری تقاضوں کی پرواہ نہیں کی تو کس طرف دیش کی سیاست کو وہ لے جانا چاہتے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟