فرضی مڈ بھیڑ کے الزام میں 3 پولیس والوں کو پھانسی کی سزا

لکھنؤ کی روشن الدولہ عدالت کمپلیکس میں جمعہ کی دوپہر12 بجے لوگوں کی چہل پہل اچانک بڑھ گئی ۔ مڈ بھیڑ کے ملزم 8 پولیس ملازمین کو سخت سکیورٹی کے پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔ کبھی خود ملزمان کو پکڑ کر تھانے و کچہری لے جانے والے یہ پولیس والے خود خاکی سے گھرے تھے اور ان کی زبان بند تھی۔ باہر ان کے گھروالوں اور متاثرہ خاندان کے ساتھ میڈیا ملازمین کی بھی بھیڑ تھی۔ معاملہ31 سال پہلے کا ہے۔ان پر اپنے ہی سی او کو گولی مار کر ہلاک کرنے اور پھر اسے انکاؤنٹر دکھانے کے لئے 12 دیہاتیوں کو مارڈالنے کا الزام ہے۔ سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے جمعہ کو گونڈہ شہر کے اس وقت کے کڑیا تھانیدار آر بی سروت اور ہیڈ کانسٹیبل رام نائک پانڈے و کانسٹیبل رامشرن کو پھانسی کی سزا سنائی۔ کورٹ نے اسی معاملے میں پی اے سی کے صوبیدار رماکانت دکشت ،گونڈہ ایس پی کے پیش کار رہے نسیم احمد، کوتوالی گونڈہ دیہات میں دروغہ رہے منگت سنگھ، پرویز حسین اور تھانہ نواب گنج کے تحت لکڑ منڈی پولیس چوکی میں اس وقت کے انچارج رہے راجندر پرساد سنگھ کو عمر قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے سبھی قصورواروں پر جرمانہ بھی لگایا۔ عدالت نے اپنے19 صفحات کے فیصلے میں موت کی سزا کے ملزمان کی حرکت اور طرز عمل پر سخت نکتہ چینی کی ۔ عدالت کا کہنا تھا اگرچہ سبھی ملزم پولیس والے ہیں اور اس وقت وہ بوڑھے اور بیمار اور چلنے پھرنے میں لاچار ہیں لیکن جن کے قتل ہوئے ہیں ان کا کیا جرم تھا؟ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ سماعت میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ یہ انصاف کا دیش ہے۔ عدالت نے دفاع فریق کی سبھی دلیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا اگر ملزمان کو جرم کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاتی تو عدالت اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے گی۔ ملزمان کی حرکت سماج کے لئے داغ ہے اس حملے میں بے رحمانہ طریقے سے قتل کئے گئے اور منصوبہ بند طریقے سے پولیس فورس نے اپنے افسر کو قتل کیا، بعد میں دکھاوے کے لئے12 دیہاتیوں کو مار ڈالا۔ اس واقعے میں گولی لگنے کے بعد ڈی سی پی کے پی اے امید سنگھ کو وقت رہتے مناسب علاج مہیا نہیں کرایا گیا۔ عدالت نے الزام ثابت ہوئے پولیس والوں کے برتاؤ پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا اگر عام شخص کے ذریعے اس طرح کا قتل کیا جاتا تو تب بھی معاملے کی پوزیشن اور ہوتی لیکن اس معاملے میں پولیس ملازمین نے فرضی مڈ بھیڑ میں لوگوں کو بے رحمانہ طریقے سے مارا ہے لہٰذا عدالت کی رائے میں وہ سخت سزا کے حقدار ہیں۔ یہ کیس 12 مارچ1982ء کا ہے۔ 12 مارچ کی رات میں مادھو پور گاؤں میں ڈکیتوں کا ایک گروہ کا سراغ ملنے کی بات کہہ کراس وقت کے تھانیدار آربی سروج ، ڈی ایس پی کے پی سنگھ کو پولیس کے پی اے سی جوانوں کے ساتھ لیکر گئے ۔ گاؤں میں کسی ڈکیت کے نہ ملنے پر ڈی ایس پی اور تھانیدار سروج کے درمیان کہا سنی ہوگئی۔ اسی کے بعد ڈی ایس پی کو گولی ماردی گئی۔ گولی لگنے کے بعد ڈی ایس پی سنگھ کو علاج کیلئے نہیں لے جایا گیا۔ جانچ سے پتہ چلا ہے ڈی ایس پی کے پی سنگھ ۔ تھانیدار سروج اور کچھ دیگر پولیس ملازمین کے خلاف کچھ الزامات کی جانچ کررہے تھے اسی کے چلتے انہیں ختم کرنے کی سازش رچی گئی۔ اسے مڈ بھیڑ کی شکل دینے کے لئے 12 بے قصور دیہاتی اکھٹے کئے گئے اور انہیں بھی گولی مار دی گئی، بعد میں انہیں ڈکیت بتا دیا گیا۔ عدالت کے احاطے میں متاثرہ خاندانوں کے لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں جو برسوں سے انصاف کا انتظار کررہے تھے۔ وہ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ آنسو نہیں روک پائے۔ بنیادی ملزم اس وقت کے ایس او کوشک ، آر بی سروج نے فیصلہ آنے کے بعد کہا کہ سی بی آئی نے انہیں و دیگر پولیس ملازمین کو جھوٹا پھنسایا ہے اور وہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں چنوتی دیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!