کانگریس کو امکانی فضیحت سے بچانے کیلئے کورین استعفیٰ دے دیں

راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین اور سینئر کانگریسی لیڈر پروفیسر پی۔ جے کورین آج کچھ غلط اسباب کے سبب سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ ان کا نام ایک آبروریزی معاملے سے جڑ رہا ہے۔محترم پر الزام لگایا جارہا ہے کہ آپ سوریہ نیلی آبروریزی کانڈ میں شامل ہیں۔ پہلے بتادیں کے معاملہ آخر ہے کیا؟ رپورٹ کے مطابق 16 جنوری 1996ء کو سوریہ نیلی نے راجو نام کے ایک لڑکے کے ساتھ اناڑیالی سے کوتھامنگلم جانے والی بس پکڑی تھی۔ بس میں ایک انجان خاتون اوشا سے اس کی ملاقات ہوئی، جو اس پر پہلے سے نظر رکھے ہوئے تھی۔ کوتھامنگلم تک پہنچتے پہنچتے رات کے 8 بجکر40 منٹ ہوگئے تھے۔ اسی درمیان راجو بس سے غائب ہوگیا۔ جانچ رپورٹ کے مطابق یہ سب ایک سازش کا حصہ تھا۔ اتنی رات گئے سوریہ نیلی اکیلی گھر نہیں لوٹ سکتی تھی اس لئے اپنے پوٹائم میں مقیم ایک رشتے دار کے گھر جانے کا ارادہ بنا لیا۔ لیکن جب وہ رشتے دار کے گھر پہنچی تو گھر پر کوئی موجود نہیں تھا۔ تبھی وہاں اوشا آگئی اور سوریہ نیلی کو اس کے نام سے بلایا۔ اوشا نے سوریہ نیلی کو شری کمار نام کے ایک شخص سے ملوایا اور کہا یہ تمہیں منڈاکائم تک چھوڑدیں گے۔ شری کمار سوریہ نیلی کو ایک لانج میں لیکر گیا۔مبینہ طور پر اس نے وہاں اس سے آبروریزی کی۔ بعد میں شری کمار کی پہچان وکیل ایس ۔ایس دھرم راجن کے نام سے ہوئی۔ سوریہ نیلی کو17 جنوری کو بس سے دھرم راجن کوچی لے گیا ، جہاں سے بعد میں اسے کیٹل سے الگ الگ علاقوں میں بھیجا گیا۔ اس دوران اس کے ساتھ 40 لوگوں نے آبروریزی کی اور یہ سلسلہ 40 دنوں تک چلتا رہا۔ اب بات آتی ہے پروفیسر کورین کے ملوث ہونے کی ۔ سال1996ء میں کورین مرکزی وزیر مملکت ہوا کرتے تھے۔ 26 مارچ 1996 ء کو سوریہ نیلی نے پی ۔جے کورین کی تصویر دیکھی اور اسے آبرویزوں میں سے ایک بتایا۔ سوریہ نیلی کے مطابق19 فروری کو کماری گیسٹ ہاؤس میں کورین نے اس سے آبروریزی کی۔ 15 مارچ1996ء کو سوریہ نیلی کے خاندان نے اڈوکی کے مجسٹریٹ کورٹ میں ذاتی پٹیشن دائرکی۔ عدالت نے کورین کو سمن جاری کیا لیکن کورین ہائی کورٹ پہنچ گئے اور مجسٹریٹ کے حکم کو خارج کردیا گیا۔ کیرل کی سی پی ایم سرکار نے کورین کو راحت دینے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔ 17 دسمبر2007 ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو محفوظ رکھا۔ کورین شروع سے اس الزام سے انکارکرتے رہے اور اس پورے واقعے کو ان کے خلاف ایک سیاسی سازش بتا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں کورین نے خط کے ذریعے نائب صدر اور یوپی اے کانگریس صدر سونیا گاندھی کو مطلع کیا ہے۔ پہلے انہوں نے کانگریس صدر سے ملنا چاہا لیکن وقت نہ ملنے کے چلتے خط لکھنا پڑا۔ عدالت کے سامنے جانے سے پہلے انہوں نے راجیہ سبھا اور کانگریس صدر کو پوزیشن واضح کرنا مناسب سمجھا۔ ایسا کرنے سے اپنے خلاف رچی جارہی سازش کے تحت17 سال پرانے معاملے کو کھولے جانے کی مہم چلائی جارہی ہے اور وہ کانگریس صدر سے مل کر اس کو روک سکیں۔ کورین کے قسمت سے ایسا ہوتا نہیں لگتا اس لئے کیرل اسمبلی کے سیاسی گلیاروں سے نکل کر اب معاملہ دوبارہ سماعت کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے۔ اس پوری کارروائی کے دوران ایوان سے سڑک تک اور سیاسی پارٹیوں سے تنظیم تک سبھی کی اس معاملے میں رائے صاف ہے۔ ایک معاملے کی دوبارہ منصفانہ جانچ ہو اور دوسری یہ کے بے داغ ہونے تک کورین اخلاقی طور پر راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ یہ اکثریت کی رائے ہے اس لئے متاثرہ اپنے بیان پر قائم ہے اور اس معاملے میں محض ایک ملزم ضمانت پر چھوٹتے ہی فرار ہے۔ وکیل نے ایک نامعلوم جگہ سے چینل کو دئے گئے انٹرویو میں کورین کو داغی ٹھہرایا ہے۔ کانگریس صدر اور پارٹی کی مصیبت یہ ہے کہ ایک طرف تو دیش کا آبروریزوں کے تئیں ماحول بہت گرم ہے اور دوسرا بجٹ اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ کورین کو پارٹی کی خاطر خود استعفیٰ دے دینا چاہئے اور پارٹی کو ہونے والی فضیحت سے بچانا چاہئے۔ داغ صاف ہوتے ہی لوٹ سکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟