اگر حکومت ، پولیس، انتظامیہ بے قصور تو قصوروار کون سے وزیر ہیں؟

دنیا میں کنبھ جیسا کوئی بڑا دھارمک اجتماع نہیں ہوتا جہاں ایک جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں عوامی سیلاب اکٹھا ہوتا ہے۔ اس لئے اسے اپنے آپ میں ایک نرالہ سماگم مانا جاتا ہے۔ مونی اماوسیہ پر 3 کروڑ شردھالوؤں نے سنگم میں آستھا کی ڈبکی لگائی۔ ظاہر ہے کہ ایسے انعقاد کو پرامن طور سے مکمل کرانا ایک بڑا چیلنج تو ہے ہی ساتھ ہی یہ سرکار اور میلہ انتظامیہ اور ریلوے کے لئے بھی یہ ثابت کرنے کا موقعہ بھی ہے کہ وہ یہ کردکھائیں کے وہ اس بڑے میلے کا ٹھیک طریقے سے انتظام کرنے کے اہل ہیں۔ ایتوار کو الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر مچی بگدڑ اور اس میں جان گنوانے والوں کی تعداد نے صاف کردیا کے کنبھ جیسے بڑے اجتماع کے موقعے پراکٹھی ہونے والی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے جس طرح سے سسٹم مینجمنٹ طریقے کی ضرورت ہوتی ہے اس میں کہیں نہ کہیں خامی ضرور جھلکتی تھی۔ ریلوے شہری انتظامیہ اور میلہ انتظامیہ کے درمیان کوئی ایسا تال میل نہیں نظر آیا جس سے بھاری بھیڑ کے آنے جانے کولیکر کوئی ٹھوس فیصلہ لیا جاسکے جبکہ اس بارے میں ماضی میں تمام دعوے کئے گئے تھے ۔ سوال ہے کہ کیا کنبھ جیسے بڑے دھارمک اجتماع کو لیکر ریلوے کے پاس کوئی خاص منصوبہ نہیں تھا؟ یہ بات تو طے تھی کہ مونی اماوسیہ جیسے خاص موقعے پر عام طور پر زیادہ بھیڑ اکٹھی ہوگی۔ یہ بھی صاف تھا کہ لوگ دور دور سے آئیں گے۔ ٹرین جیسے وسائل سے سب سے زیادہ لوگ آئیں گے۔ پھر بھی اس طرح کی افراتفری کیوں مچی؟ نئی دہلی اور دوسرے کچھ اسٹیشنوں پر زیادہ بھیڑ جمع ہونے کے سبب پہلے بھی اس طرح کے حادثات ہوئے ہیں تب ریلوے نے انہیں روکنے کے لئے کئی طرح کے منصوبے بنائے تھے۔ الہ آباد میں ان کا استعمال کیوں نہیں ہوا؟ اگر میلہ انتظامیہ پولیس اور ریلوے پولیس کے درمیان تال میل ہوتا تو شاید ریلوے اسٹیشن پر اتنے سارے لوگ ایک ساتھ نہیں پہنچتے۔ بھیڑ کو ایک جگہ جمع ہونے کوکہا جاسکتا تھا۔ اصل میں کنبھ زون میں سسٹم سے زیادہ مسئلہ 2 سے3 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دینا ہی خطرے کی گھنٹی تھی۔ ضلع انتظامیہ کو چاہئے تھا وہ شہر کے اندر ہی اس بھیڑ کو داخل نہ ہونے دیتی۔ سرحد اضلاع پرتاپ گڑھ، جونپور، چترپور، فتح پور، کوشامبی میں بھی بھیڑ کو پہلے ہی سے روکا جاتا اور تعداد کے مطابق پہلے شہر میں داخل ہونے کی اجازت ملتی بعد میں میلہ زون میں لیکن ریاستی حکومت نے ایسی کوئی دوررس حکمت عملی نہیں بنائی۔ جتنے مسافر آئے سبھی کو کنبھ زون میں جانے کی اجازت دے دی گئی اور ٹھیک ٹھاک میلہ زون سے نکل کر اپنی ذمہ داری سے نجات پالی۔ میلہ زون سے نکلنے کے بعد تیرتھ یاتری سیدھے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے جبکہ اسٹیشن پر اتنے لوگوں کے جمع ہونے کی سہولت ہی نہیں تھی۔ اگر ریلوے انتظامیہ کو سمجھ ہوتی تو سول لائن زون اور دیگر زون میں مسافر ریلوے جنکشن کے دونوں طرف باڑہ بنا کر ٹھہرائے جاتے۔ ضرورت کے مطابق ریلوے اسٹیشن پر جانے کے لئے مسافروں کو وہاں سے بھیجا جاتا۔ لیکن اس کام کے لئے پولیس کا تعاون بھی ضروری ہوتا ہے۔ نارتھ سینٹرل ریلوے کے افسران کا کہنا ہے ضلع انتظامیہ سے پولیس منگائی گئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ کیونکہ میلے میں انتظام کرنا تھا اور سارا ذمہ ریلوے انتظامیہ پر تھونپ دیا گیا۔ ریلوے پولیس کا عام جنتا خاص کر تیرتھ یاتریوں سے جیسا برتاؤ ہونا چاہئے تھا اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ دراصل ریلوے پولیس کو نہ تو ایسا بتایا گیا اور نہ ہی بھیڑ کو کیسے کنٹرول کریں اس کی تربیت دی گئی۔ اس لئے بھیڑ بڑھتے ہی ریلوے پولیس بد حواس ہوگئی اور جیسے ہی اسٹیشن پر ٹرین آنے کا اعلان ہوا اور فٹ اوور برج پر دونوں طرف سے لوگوں کا ریلا آگیا۔ ریلوے پولیس نے سوجھ بوجھ سے کام لینے کے بجائے ان پر لاٹھی چارج کردیا ۔ اس کے بعد جو ہونا تھا ہوا۔ سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ ہے کہ نارتھ سینٹرل ریلوے نے اور نہ ہی الہ آباد زون ریلوے اسٹیشن پر کسی طرح کی ایمرجنسی حکمت عملی بنائی گئی اگر حادثہ ہو تو اس سے کیسے نمٹیں اور متاثروں کو کیسے ہسپتال پہنچانے کا انتظام ہو اس کے بارے میں پہلے سے سوچا جاتا۔ یہاں تو کوئی عارضی ہسپتال تھا اور نہ ہی ریلوے ہسپتال کی ایمبولنس کی تعیناتی۔ ورادات کے دو گھنٹے بعد ایمبولنس کا آنا اور اسٹریچر کی کمی نے مسافروں کو کپڑوں میں اٹھاکر ہسپتال پہنچایا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کے ریلوے انتظامیہ نے بیحد لاپروائی سے میلے کا انتظام کیا تھا جس کا نتیجہ بے قصور مسافروں کو بھگتنا پڑا۔ الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر حادثہ کسی ایک وجہ سے تو نہیں ہوا۔یہاں لاپروائی کی کئی حدیں پارہوئی ہیں وہ ساری باتیں سامنے آنی چاہئیں تاکہ کوئی بنیادی تبدیلی لائی جاسکے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟