دیش میں ہر منٹ میں ایک بچہ غائب ہوجاتا ہے

اس پر حیرت نہیں غائب ہوتے بچوں کو لیکر لاپروائی کا ثبوت دینے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کو بھی سخت ڈانٹ لگائی ہے۔ لاپتہ ہورہے بچوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے ذریعے یہ کہا جانا کہ سرکاروں کو ان بچوں کی کوئی فکر نہیں ہے، یہ ایک سخت لیکن بہت ہی مجبوری میں کیا گیا تبصرہ ہے۔ جنوری2008ء سے جنوری2010ء کے درمیان لاپتہ تقریباً1.17 لاکھ بچوں جن میں ایک تہائی اب بھی تلاشے نہیں جاسکے، سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے یہ ریمارکس دئے۔ سپریم کورٹ کی ناراضگی تب اور بھی جائز لگتی ہے جب یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ اس کے ذریعے بار بار کہنے کے باوجودلاپرواہ ریاستی سرکاروں کی جانب سے بچوں کی گمشدگی کے سلسلے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے میں آناکانی کی گئی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے ریاستوں کو وقت دیتے ہوئے رپورٹ داخل کرنے اور ناکام رہنے پر چیف سکریٹریوں کو پیش ہونے کو کہا۔ ایک بیحد سنجیدہ مسئلے پر اسٹیٹ کی اس بے رخی پرشاید ہی کسی کو تعجب ہوا ہو عدالتیں کہہ کر تھک جاتی ہیں لیکن سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سیاسی لیڈر شپ کو بھی جب تک اپنے وجود پر کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا تب تک وہ بھی کسی اشو کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ لاپتہ بچوں کا معاملہ کیونکہ غریب طبقے سے وابستہ ہے اس لئے انہیںیہ پریشان نہیں کرتا۔ سماج سے محروم طبقے کے اور دیگر سوالوں کی طرح یہ بھی حاشئے پر پڑا ہوا ہے۔ لاپتہ بچوں کا سیدھا تعلق قانون و انتظام سے ہے۔ باوجود اس کے سپریم کورٹ کے سامنے یہ صاف ہوا کہ کچھ ریاستوں نے اس کے نوٹس کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ بچوں کے ساتھ ہورہے برتاؤ کے معاملے میں رہ رہ کر سامنے آنے کے باوجود حالت یہ ہے کہ کئی ریاستوں میں لاپتہ بچوں کی رپورٹ تک درج نہیں کی جاتی ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کوئی بھی سوال سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ آخرکار اتنی بڑی تعداد میں بچے کیوں لاپتہ ہورہے ہیں؟ اسی لاپرواہی اور بے حساسی کا یہ نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کے معاملے میں لاپتہ لفظ کو صحیح ڈھنگ سے تشریح نہیں کیاگیا۔ نیشنل کرائم بیورو کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کے دیش میں ہر 8 منٹ میں ایک بچہ غائب ہوجاتا ہے۔ سرکار پارلیمنٹ میں دی گئی جانکاری میں یہ مان چکی ہے کہ صرف 2011 ء میں دیش بھر میں قریب 60 ہزار بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے22 ہزار کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لاپتہ ہوئے بچوں کو منظم گوروہوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جسم فروشی ، بھیک مانگنے، بچہ مزدوری کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ دہلی کے مشہور آبروریزی معاملے کے بعد تشکیل کردہ ورما کمیٹی کو سجھاؤ دینے کو لیکر بھی ریاستوں کی پولیس سربراہوں نے غیر ضروری بے رخی دکھائی تھی۔ یہ دوہرانے کی ضرورت نہیں کے کسی بھی دیش و نظام یا سماج کی شمولیت کا اثر عورتوں اور بچوں کے تئیں اس کے رویئے کو دیکھ کر ہی پرکھا جاتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟