8 بجے،8 لوگ،8 منٹ میں گورو کی پھانسی کو لگے 8 سال
جی ہاں پارلیمنٹ پر سال2001ء میں آتنک وادی حملے کو انجام دینے میں جیش محمد کے آتنک وادیوں کو مدد کرنے والے کشمیری پھل فروش محمد افضل گورو کو سنیچر کو بیحد خفیہ طور پر صبح8 بجے ،8 لوگوں کی موجودگی میں 8 منٹ میں پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا۔ حالانکہ اس پھانسی کو دینے میں یوپی اے سرکار کو 8 سال کا عرصہ لگ گیا۔ سال2002ء میں پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں بطور اسپیشل ایڈیشنل سیشن جج جسٹس شیو نارائن ڈھینگڑا نے افضل کو قصوروار مانتے ہوئے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر آتنکی حملے سے پورا دیش غصے میں تھا۔ جانچ ایجنسیوں کے پاس قصورواروں کو قصوروار ٹھہرانے کے لئے ٹھوس ثبوت موجود تھے، مقررہ وقت میں نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک نے پارلیمنٹ حملے کے بنیادی مجرم افضل گورو کو پھانسی کی سزا سنا دی تھی لیکن سرکار نے ہی رسی کھینچنے میں 8 سال لگا دئے۔
افضل گورو کو یوں چپ چاپ اور اچانک بغیر بھنک لگے پھانسی پر لٹکانے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اس پر بحث ہونی چاہئے لیکن اس سے پہلے دو باتیں کرنا ضروری ہیں۔ جو لوگ افضل گورو کی سزا کو غلط اور ناجائز قراردیتے ہوئے کہتے ہیں ان کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں چلا، انہیں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ بھول رہے ہیں کے اسی کیس میں ملزم ذاکر حسین کالج کے پروفیسر ایس آر گیلانی کو سیشن عدالت نے حالات اور ثبوتوں کی بنیاد پر قصوروار ٹھہراتے ہوئے سزا سنائی تھی لیکن دہلی ہائی کورٹ نے گیلانی کی سزا کے خلاف داخل چیلنج عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دہلی پولیس کے ان ثبوتوں کو بے بنیاد قراردیا تھا۔ ہائی کورٹ نے گیلانی اور افشاں گورو کو پارلیمنٹ حملے سے بری کردیا تھا۔ دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حالانکہ مسٹر پرنب مکھرجی صدر بن گئے ہیں لیکن برسوں تک وہ یوپی اے سرکار کے سنکٹ موچک رہے اور آج بھی ہیں۔ جب صدر محترم کو لگا کے کانگریس بحران سے گھری ہوئی ہے تو اس سے نکالنے کے لئے کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے کانگریس کا گرتا گراف رک جائے۔ صدر بننے کے بعد بھی پرنب نے کئی موقعوں پر اپنے فیصلوں سے سرکار کو بحران سے نکالا ہے۔ پہلے اجمل قصاب اور اب افضل گورو کی رحم کی اپیل یوں ہی نہیں مسترد ہوئی؟ اب دیش کو انتظار ہے دیگر پھانسی کی سزا پائے اشخاص کو پھانسی پر لٹکتے دیکھنے کا۔ ان میں دیویندر پال سنگھ بھلر، بلونت سنگھ رجوانا، اشفاق عرف عارف اور راجیو گاندھی کے قاتل ہیں۔ کیا صدر ان کی رحم کی عرضیوں کا نپٹارہ قصاب اور گورو کی طرح کریں گے؟ رہا سوال یوپی اے اور کانگریس کی افضل کو پھانسی دینے کے پیچھے کیا کیا مقصد رہے ہوں گے؟ کانگریس نے گورو کو پھانسی دے کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
بدعنوانی اور مہنگائی جیسے اشو سے لڑ رہی کانگریس کی یوپی اے سرکار نے تین مہینے کے اندر قصاب اور گورو کو پھانسی دے کر جہاں ایک طرف اپوزیشن حملوں اور اپنی چوطرفہ تنقیدوں کا جواب دیا ہے وہیں سخت فیصلے لینے کی اپنی قوت ارادی کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اپوزیشن کے ذریعے آنے والے بجٹ اجلاس میں سرکار اور اس کے اہم وزرا کو گھیرنے کی حکمت عملی بنائی جارہی تھی خاص کر جے پور چنتن شور میں وزیر داخلہ کے ذریعے بھگوا آتنکواد سے جڑے بیان کو لیکر ان کا بائیکاٹ کرنے کی تیاری کی جارہی تھی۔ ایسے میں سرکار نے آتنک واد کے خلاف سخت قدم اٹھا کر اپوزیشن کو سیاسی طور پر مات دینے کی کوشش کی ہے۔ بیشک بھگوا آتنک واد کے متعلق بیان اور اجتماعی آبروریزی معاملے کو ٹھیک طرح سے ہینڈل نہ کرپانے کو لیکر وزیر داخلہ شندے پر لگے الزامات کی دھار کو کم کرنے کے لئے کانگریس نے اسی وزیر داخلہ سے دوسری پھانسی پر فیصلہ کروا کر اپوزیشن کی آئندہ کی حکمت عملی پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے جس طرح سے یوپی اے کے عہد کے آخری ڈیڑھ برس میں کانگریس نے سرگرمی دکھانی شروع کی ہے اس کا صاف مقصد آنے وانے دنوں میں سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔
پالیسی پالیٹکس کے الزام جھیل رہی سرکار نے ایک کے بعد ایک جس طرح سے سنجیدہ معاملوں میں قصورواروں کو پھانسی دلوائی ہے اس سے صاف ہوگیا ہے کہ وہ پوری طرح سے حرکت میں آگئی ہے اور پھر نریندر مودی کے مرکز کی طرف بڑھ رہے قدموں سے گھبراکر کانگریس نے پہلے ہی اس مصیبت سے نجات پانے کی کوشش کی ہے جسے مودی مبینہ طور پر اپنے پروپگنڈہ کی بڑی مہم چلانے والے تھے۔ پھرلوک سبھا چناؤ کے دستک دینے پر ووٹ بٹورنے کی کانگریسی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ خیال رہے کہ 20 جنوری کو شندے نے کانگریس چنتن شور میں بھگوا آتنک واد کی بات کہی اور بھاجپا و سنگھ پر آتنکی کیمپ چلانے کا الزام لگایا۔ ٹھیک اس سے اگلے دن انہوں نے افضل کی فائل منگائی اور 22 جنوری کو اسے صدر کے پاس بھیج دیا۔ برسوں سے لٹکا ہوا معاملہ 15 دن میں ہی نپٹادیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا ماننے والوں کی کمی نہیں جو یہ مانتے ہیں کہ پھانسی کانگریس کا لوک سبھا چناؤ جیتنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر بھاجپا مودی کو آگے کرکے چناؤ لڑتی ہے تو اس سے بلاشبہ دیش کا مسلمان کانگریس کو ووٹ دے گا۔
افضل کی پھانسی جیسے چھوٹے موٹے قدم بھی کانگریس کے حساب کتاب کو خراب نہیں کرسکتے کیونکہ اگر مودی کی مخالفت کرنی ہے تو انہیں کانگریس کے ساتھ آنا ہی ہوگا۔ افضل کی پھانسی سے بھاجپا کو دھکا لگنا فطری ہے ہی۔ ایک بہت بڑا اشو اس کے ہاتھ سے چھن گیا ہے۔ یہ ہی نہیں اس قدم سے بھاجپا کے ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کی کوشش کو بھی دھکا لگا ہے۔جب بھاجپا یہ مان رہی تھی کہ مودی سمیت اس کے دوسرے لیڈر آتنک واد کے اشو پر جب اپنی بات رکھیں گے تو کانگریس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا لیکن اب الٹا ہونے کا خطرہ پڑ گیا ہے۔ کانگریس تو اب یہ دعوی کرسکتی ہے ان کے عہد میں آتنکیوں کو پھانسی دی گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں رہتے ہوئے آتنک وادیوں کو قندھار تک چھوڑنے سرکار گئی تھی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں