قصاب بنام افضل ایک خوف کا چہرہ تو دوسرا شیطانی دماغ
پارلیمنٹ حملے کے سازشی افضل گورو کی پھانسی کی خبر کے ساتھ ہی ہر ہندوستانی کے ذہن میں ایک اور پھانسی کی انچاہی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ممبئی میں قہر برپانے والے اجمل عامر قصاب کا کارنامہ بھلے ہی الگ ہو لیکن دونوں کا ارادہ ایک ہی تھا، انجام بھی ایک سا ہی ہوا۔ ایک نے دیش کے اقتصادی شہر کو تو دوسرے نے سیاسی مندر کو نشانہ بنایا۔ اس میں سے ایک غیر ملکی تھا تو دوسرا ہندوستانی۔ لیکن دونوں کی کمان پاکستان میں ہی تھی۔ دونوں کو کانگریس قیادت والی یوپی حکومت نے پھانسی پر لٹکایا ۔ دونوں کو صبح صبح خفیہ طریقے سے لٹکایا گیا۔ قصاب سرحد پار سے آیاتھا، افضل ہماری سرزمیں کا تھا۔ قصاب میں نفرت کا زہر بھرا گیا تھا۔ افضل گورو زہر بھرتا تھا۔ قصاب غیر قانونی طریقے سے گھس آیا تھا۔ افضل غیر قانونی طریقے بتا رہا تھا۔ قصاب قاتل تھا، حملہ آور تھا،جوان تھا۔ افضل قاتلوں اور حملہ آوروں کی سازش بن رہا تھا، مددگار تھا اور وہ سازش کا ماسٹرمائنڈ تھا۔ لیکن دونوں کے معاملوں میں ایک فرق تھا۔ قصاب کولیکر ایک طرف ماحول بنا کے وہ آتنکی ہے اور کئی گھنٹوں تک اس نے تباہی مچائی، اسے پھانسی ہونی چاہئے۔ افضل کا ماحول الگ رہا۔ ایک طبقہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اسے معصوم بتاتا رہا۔ اس میں بڑے دانشور خاص کر سیکولر دانشور تھے۔ دوسری طرف افضل کو پھانسی دینے میں8 سال کیوں لگے۔ یہ سوال آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ قصاب کی طرح افضل نے بھلے ہی خود اپنے ہاتھوں سے موت نہیں برپا کی لیکن پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں اس کے رول کو دیکھ کر اس کا یہ انجام عدالت نے 8 سال پہلے ہی سنا دیا تھا۔پارلیمنٹ حملے میں بھلے ہی حملہ آور صرف 10 سکیورٹی ملازمین کو نشانہ بنا پائے لیکن حملے کی اپنی اہمیت میں کسی بھی طرح سے ممبئی حملے سے کم نہیں تھی۔ قصاب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جہاں دیش کی اقتصادی راجدھانی ممبئی کو نشانہ بنایا تھا وہیں افضل کے نشانے پر ہندوستانی جمہوریت کے دل پارلیمنٹ سمیت وزیر اعظم، وزیر داخلہ سمیت پورا حکمراں طبقہ و سیاسی لوگ تھے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کو ٹھکانے لگانے والے ممبئی حملے میں پکڑا گیا قصاب اگر آتنک واد کا زندہ چہرہ تھا تو افضل آتنک واد کا شیطانی دماغ۔ دونوں حملوں کا ارادہ کشمیر مسئلے کو بین الاقوامی رنگ دینا تھا مگر قصاب کو اس کارروائی کے لئے سیدھے پاکستانی ایجنسیوں نے ہر طرح کی مدد کی اور ٹریننگ دے کر بھیجا تھا جبکہ کشمیر کے سوپور علاقے کا باشندہ افضل اس مسئلے کے ساتھ طویل عرصے سے جذباتی طور پر وابستہ ہوا تھا۔ دونوں کو جس جیل میں پھانسی دی گئی وہیں پر دفنایا بھی گیا۔ قصاب اور افضل دونوں ہی پاکستانی آتنکی تنظیم کے مہرے تھے۔ قصاب جہاں پہلے مزدوری کرتا تھا وہیں افضل نے اپنے کیریئر کی شروعات پھل فروش سے کی تھی۔ قصاب لشکر طیبہ کا گرگا تھا تو افضل گورو جیش محمد کا۔ قصاب کی طرح گورو بھی حملے والے دن گرفتار ہوا تھا۔ قصاب ممبئی میں پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا، گورو دہلی سے بھاگنے کی کوشش میں ایک بس سے پکڑا گیا۔ 43 سالہ افضل گورو کشمیری تھا وہ دوسرا ایسا دہشت گرد ہے جسے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ اس سے پہلے 11 فروری 1984ء کو مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ مقبول بٹ کو چھڑانے کے لئے جے کے ایل ایف کے آتنکیوں نے ایک ہندوستانی سفارتکار کا اغوا کرلیا تھا۔ اپنے پاکستانی آقاؤں کے اشارے پر قصاب کا ارادہ ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ غیر ملکیوں کو نشانہ بنانا تھا۔ وہیں افضل نے بھارت سرکار کو دباؤ میں لیکر اپنی مانگ منوانے کا بیحد خطرناک ارادہ منوایاتھا۔ دونوں ہی معاملوں میں پاکستان بار بار اپنے کسی رول سے پوری طرح سے انکار کرتا رہا لیکن اس کا رول صاف تھا۔ یہ ہی وجہ تھا کہ دونوں ہی حملوں کے بعد اس کے بھارت کے تعلقات بیحد نازک حالت میں پہنچ گئے تھے۔ پارلیمنٹ حملے کے بعد تو دنوں ملکوں کے بیچ جنگ جیسی تیاریاں وسیع پیمانے پر شروع بھی ہوگئی تھیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں