وی آئی پی سیکورٹی کے لئے نئی فورس: دہلی پولیس کو مہلاؤں،عوام کی سیکورٹی پر لگاؤ

نیتاؤں، نوکرشاہوں اور مجرموں کی سیکورٹی میں تعینات پولیس کی ضرورت پر اکثر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا ہے۔ وی آئی پی سیکورٹی کو لے کر سپریم کورٹ کی ہدایت بے حد اہم ہے سپریم کورٹ میں جسٹس جے ایف سنگھوی کی سربراہی والی بنچ یوپی کے ابھے سنگھ کی رٹ پٹینشن پر غور کررہی ہے۔ بنچ نے شیلادیکشت کے اس بیان پر بھی پوچھ تاچھ کی ہے جس میں انہوں نے بدھوار کو کہاتھا کہ حال ہی میں سیکورٹی اصلاحات پر غور کرنے کے باوجود راجدھانی میں مہلائیں محفوظ نہیں ہے۔ کورٹ نے ریاستوں کے ہوم سیکورٹیوں سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں بتائیں کہ ان کے یہاں پولیس سیکورٹی کسے، کتنی اور کیوں ملی۔ اور اس پر کتنا خرچ آرہا ہے۔ راجدھانی دہلی میں 459 وی آئی پی کی سیکورٹی پر سال بھر میں 341کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ جانکاری دہلی سرکار نے سپریم کورٹ نے ایک حلف نامہ میں دی ہے۔ حلف نامہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دہلی پولیس میں 83452 اسامیاں منظور شدہ ہے جس میں قریب 36ہزار پولیس کے جوان تعینات ہے۔ دہلی پولیس کی سیکورٹی یونٹ میں 7205 پولیس کے جوان جب کہ راشٹر پتی بھون کی سیکورٹی کے لئے 844 پولیس کے جوان تعینات ہیں جن لوگوں کو آتنکی، نکسلی تنظیموں کے علاوہ انتہا پسند گروپوں سے جان کاخطرہ ہے انہیں سرکار زیڈ پلس، زیڈ، وائی و ایکس زمرہ کی سیکورٹی مہیا کراتی ہے۔ ان میں نیتا وسرکاری مشینری سے جڑے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی سیکورٹی مہیا کرائی جاتی ہے جنہیں کوئی دھمکی تو نہیں ہے لیکن وہ ایسے دفتر میں ہیں جہاں مفاد عامہ میں لئے گئے فیصلے سے کسی کے نشانے پر آئے ہوں۔ اس کے علاوہ کسی بھی شخص کی جان کو خطرہ محسوس ہونے پر بھی اس کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے دہلی پولیس سے کہا ہے کہ وہ وی آئی پی سیکورٹی میں لگے پولیس کرمچاریوں کو وہاں سے ہٹا کر مہلاؤں کی سیکورٹی میں لگائے۔ کورٹ نے تو یہاں تک پوچھا ہے کہ آخر ججوں کو کیا سیکورٹی دی گئی ہے؟ عدالت نے اس بات پر چنتا جتائی ہے کہ کئی ایسے نیتاؤں کو سیکورٹی ملی ہوئی ہے جو حکومت سے باہر تھے اور ان کے خلاف کئی معاملے چل رہے ہیں۔ وی آئی پی کو پولیس سیکورٹی کامعاملہ پہلے بھی اٹھتا رہا ہے لیکن دہلی گینگ ریپ کے بعد یہ زیادہ اہمیت سے اٹھایا گیا ہے ۔ راجدھانی کو شرمسار کرنے والی گینگ ریپ کی گھٹنا کے بعد بھی دہلی پولیس کی سرگرمی نہ دیکھنا گمبھیر چنتا کا موضوع ہے۔ افسوس ہے کہ دیش کی راجدھانی میں کئے جارہے کڑے سرکشا انتظاموں کے دعوے اب بھی سچائی سے کوسوں دور ہیں پولیس کی مستعدی پر سوال عام آدمی اٹھتا تھا تو شاید تال بھی جاتا تاہم یہ حقیقت دہلی کی وزیراعلی شیلادیکشت نے بھی منظور کی ہے۔لاجپت نگر علاقے میں ایک لڑکی سے عصمت دری کی کوشش اور اس کے منہ میں لارڈ ڈالنے کی حرکت پر وزیراعلی شیلادیکشت نے ایک بار پھر کہا ہے کہ دہلی میں مہلاؤں کی سیکورٹی پختہ نہیں ہے اس کے بعد دہلی میں سیکورٹی کے دعوؤں پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ بدقسمتی کی بات ہے کہ دہلی میں مہلاؤں کی سیکورٹی کو لے کر جواجتماعی طورپر کوشش سے کارگر قدم اٹھنے چاہئے تھے وہ نہیں اٹھے بلکہ الزام درالزام اور پولیس کا کنٹرول اپنے پاس سے رکھنے کی قواعد کا ہی دور جاری ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ صورت حال بے حد نازک ہے یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ وی آئی پی سیکورٹی کی جانچ کی جائے گی اور غیرضروری سیکورٹی کے جوانوں کو ہٹایا جائے گا۔ لیکن ایسا ہوتا ہے نہیں ہے۔ وی آئی پی سیکورٹی تام جھام گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سیکوٹری کی ضرورت نیتاافسروں یا دوسرے لوگوں کو کسی خطرے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنا رتبہ بڑھانے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ سیاسی وجوہات سے سیکورٹی کا اقدار کرنا کسے متاثر ہوتا ہے۔ اس کی مثال راشٹریہ سرکشا گارڈ( این ایس جی) کی تعیناتی ہے ۔ این ایس جی کے کمانڈوں کو خاص طور سے دہشت گردی مخالف کارروائی کرنے کے لئے ٹریننگ دی جاتی ہے وہ وی آئی پی سیکورٹی میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ جب پی چدمبرم وزیرداخلہ تھے تب انہوں نے این ایس جی حاصل سیکورٹی کے لوگوں کی تعداد 14 پرلادی تھی۔ اب پھر 17 لوگوں کو این ایس جی کمانڈو ملے ہوئے ہیں اور جلد ہی یہ تعداد 20کے پار ہوسکتی ہے۔ ان میں کئی لوگوں کو نہ تو اس کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی وقت کے مطابق ترجیح۔ اگر سپریم کورٹ جس نے اتنی دلچسپی اب تک لی ہے خود وی آئی پی سیکورٹی والے لوگوں کی فہرست میں تفصیل سے جائیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ کسی وقت بھارت میں بڑے بڑے نیتا بھی کوئی خاص سیکورٹی نہیں رکھتے تھے۔ 70 کی دہائی میں جب دہشت گردی پھیلی اور دہشت گردوں نے بعد اہم لوگوں کو نشانہ بنایا تب وی آئی پی سیکورٹی کا چلن چل پڑا۔ کچھ نیتاؤں کو تو سچ مچ پرائیویٹ سیکورٹی کی ضرورت تھی اور ہے بھی لیکن باقی نیتا یا مبینہ طور پر اہمیت کے حامل لوگوں کو یہ رتبے کی علامت زیادہ لگتی ہے۔ لال بتی والی گاڑی کی طرح ہی پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ ستہ اور اسٹیٹس کی نشانی بن گئے ہیں اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیکورٹی کو لے کر دہلی سرکار حساس ہوئی ہے اور دہلی پولیس کی سرگرمی بڑھی ہے لیکن سڑک پر سیکورٹی خاص کر مہلاؤں کی سیکورٹی کے معاملے میں اب بھی خاص سدھار نظر نہیں آرہا ہے۔ جو یقیناًبدنصیبی ہے اور محکمہ کو کٹکھڑے میں کھڑا کرتا ہے۔ اس سے نجات پانے کے لئے نئے سرے سے اسکیمیں بنانے کے ساتھ سخت قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ مجرم پیشہ عناصر میں قانون کے تئیں ڈر پیدا کئے جاسکیں اور لوگوں کی سوچ بدلیں۔ آج حالت یہ بن گئی ہے کہ دہلی پولیس اپنے آپ کو کسی کو بھی جواب دہ نہیں سمجھتی۔ دہلی سرکار کو وزارت داخلہ پولیس محکمہ دیتا نہیں اور خود کوئی سختی کرتا نہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ ہمارے دیش میں ایک وی آئی پی تین پولیس والے ہے جب کہ 800 عام شہری پر ایک پولیس والا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت نے ایک موقع دیا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ بہترہوگا کہ وی آئی پی سیکورٹی کے لئے الگ سے فورس کا قیام کیاجائے اور عام پولیس کے جوانوں کو عوام کی حفاظت میں لگایاجائے۔ سیاسی رہنمائی کو اس کی پہل کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!