کھاپ پنچایتوں کا نیافرمان:آبروریزوں کو نہ ہو پھانسی

عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کے معاملے سے نمٹنے کے لئے بدھوار کو نئی دہلی میں ایک فاسٹ ٹریک عدالت کا افتتاح کرنے کے بعد ہندوستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس التمش کبیر نے کہا دہلی میں23 سالہ طالبہ کے ساتھ16 دسمبر کو جو اجتماعی آبروریزی ،قتل کے معاملے کے واقعہ کے معاملے میں تیزی سے مقدمہ نمٹانے کی وکالت کی۔ عوام کی ناراضگی کو جائز مانتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اگر گاڑیوں کے شیشوں سے کالی فلم ہٹانے کو لیر سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس کی تعمیل کی گئی ہوتی تو اس واردات سے بچا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھا لگا کہ اس گھناؤنے واردات کے بعد لوگوں نے عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر آواز اٹھانی شروع کردی ہے۔ انہوں نے یہاں ساکیت ضلع عدالت میں فاسٹ ٹریک عدالت کا افتتاح کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ہمیں الزام تراشیوں سے بچنا چاہئے۔ جسٹس کبیر نے کہا کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں مسئلے کی جڑ میں جانا ہے۔ یہ معاملہ جنتا کی نظروں میں ہے اور اس معاملے میں جلدی سے جلدی مسئلہ نمٹانا چاہئے۔ انہوں نے لوگوں کے اس رد عمل کو بھی خطرناک قراردیا کے ملزموں کو لوگوں کے حوالے کردیا جائے اور ان پر مقدمہ نہ چلائیں ، انہیں ہمیں سونپ دیں تو ہم ان سے نمٹ لیں گے، انہیں پھانسی پر لٹکادو۔ پھانسی کی بات آئی ہے تو ہم قارئین کو یہ بھی بتائیں گے کہ پھانسی دینے یا نہ دینے پر ہرجگہ کچھ لوگ بحث چھیڑے ہوئے ہیں۔ ہریانہ کی کھاپ پنچایتوں نے ایک نیا فرمان جاری کیا ہے کہ سرکار اس جرائم کی سزا پھانسی نہ طے کرے کیونکہ جلد بازی میں ایسا کوئی فیصلہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ پچھلے دو تین دنوں سے ہریانہ کے کئی ضلعوں میں کھاپ پنچایتوں کی میٹنگ چلتی رہی۔ پنچایتوں نے فیصلہ کیا ہے اگر سرکار آبروریزوں کو پھانسی کی سزا کا قانون بناتی ہے تو اس کی مخالفت کی جائے گی۔ کھاپ پنچایت کے ایک بڑے نیتا نے کہا کہ ایسے معاملوں میں پھانسی کی سزا یا قانونی شق شامل کر لی گئی تو اس کا بیجا استعمال ہوجائے گا۔ جیسے کے جہیز و پسماندہ ذاتوں سے وابستہ معاملوں میں ہورہا ہے۔ اگر اتنی سخت سزا دی جانے لگی تو تمام لوگ رنجش میں ایک دوسرے پر آبروریزی کا الزام لگانے لگیں گے۔ ویسے بھی ان کے مطابق خطرناک جرائم پیشہ کو سماج میں سدھرنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔ اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن کی جنرل سکریٹری جگمتی سانگوان نے کہا کہ ایسے وقت میں جب پورے دیش میں آبروریزوں کو پھانسی کی سزا کی مانگ اٹھ رہی ہے تو یہ کھاپ پنچایتیں آبروریزوں کو سخت سزا سے بچانے کے لئے اس طرح کی باتیں کررہی ہیں۔ پہلے بھی یہ پنچایتیں تمام طالبانی فیصلے لیتی رہی ہیں۔ اس کے پیچھے خاص وجہ یہی ہے کھاپوں کے تمام چودھری ہریانہ کے آبروریزی کے ملزمان کو بچانا چاہتے ہیں۔ قابل ذکر ہے پچھلے مہینے میں اس پردیش میں آبروریزی کے 20 معاملے سامنے آئے ہیں۔ یہاں پر دلت لڑکیوں کو زیادہ شکار بنایا جارہا ہے۔ ایک معاملے میں تو پچھلے دنوں کانگریس چیف سونیا گاندھی بھی افسوس جتانے گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد ہی پولیس نے سخت کارروائی کی تھی۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟