سیدھی رشوت کا نیا نام ’ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر‘ یعنی ڈی بی ٹی

مرکزی سرکار کی گیم چینجر اسکیم کیش سبسڈی پہلے ہی قدم پر کریش ہوگئی۔ سرکار آدھی ادھوری تیاری کے باوجود اس اسکیم کو 1 جنوری2013ء سے لاگو کرنے والی تھی۔طے تو یہ کیا گیا تھا کہ 51 اضلاع میں یہ یکم جنوری سے لاگو ہوگی لیکن پہلے مرحلے میں اسکیم کے لڑکھڑاتے قدم صرف20 اضلاع میں ہی پڑ سکے۔اس پر بھی عالم یہ ہے کہ یہ اسکیم صرف طلبہ وظیفہ تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ فی الحال اسکیم میں صرف7 اسکیموں کو شامل کیا جاسکا ہے۔ ڈیزل، کھاد، غذا اور مٹی کے تیل پر فی الحال کیش سبسڈی نہیں ملے گی۔ سبسڈی کی رقم سیدھے فائدہ حاصل کرنے والے کے کھاتے میں پہنچانے کی سرکار کی تیاری بھی ابھی پوری نہیں ہوسکی ہے۔ بہرحال کیش سبسڈی اسکیم پہلی جنوری سے جن اضلاع میں لاگو ہورہی ہے ان میں اترپردیش، اتراکھنڈ کا ایک بھی ضلع شامل نہیں ہے۔ 20 ضلعوں میں تقریباً دو لاکھ لوگوں کے بینک کھاتوں میں 7 اسکیموں کا پیسہ ٹرانسفر کیا جائے گا۔ فروری۔ مارچ سے ضلعوں کی تعداد بڑھائی جائے گی جبکہ سال کے آخر تک اسے پورے دیش میں لاگو کرنے کی تجویز ہے۔ سیاسی فائدے کے الزامات کے بعد سرکار نے اس اسکیم کے نام میں نقدی لفظ ہٹا کر ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر ڈی بی ٹی کا نام دیا ہے۔ جن اسکیموں پر کیش سبسڈی ملے گی وہ ہیں درجہ فہرست ذاتوں کے طلبا کو، میٹرک سے پہلے ملنے والے وظیفے اور شیڈول قبائل اور او بی سی ذاتوں کے طلبا کے کو ملنے والے وظیفے ،اندرا گاندھی امدادی اسکیم اور دھن لچھمی اسکیم وغیرہ شامل ہیں۔ کرپشن میں بری طرح ڈوبی ہوئی یہ یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی نے اب سیدھے عوام کو رشوت دینے کی اسکیم بنائی ہے۔طریقہ جو بھی اپنایا گیا ہے وہ بھی کرپشن کا ہی ہے۔ کانگریس کو2014ء لوک سبھا چناؤ کی فکر کھائے جارہی ہے۔ ماحول اتنا خراب ہوگیا ہے کہ پارٹی لیڈر شپ کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیسے ماحول کو اپنے حق میں بنائیں۔ ظاہر سی بات ہے کیونکہ معاملہ سیدھا سیاسی ہے اس لئے بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا اس کی مخالفت کرے گی اور اس کی خامیوں کو گنائے گی۔ بھاجپا ترجمان شاہنواز حسین نے کہا جن لوگوں کو اس کا فائدہ ملنا ہے ان سبھی کے بینک کھاتے ابھی تک نہیں کھل پائے اور آدھار نمبر بھی نہیں مل پایا۔ مرکزی سرکار پر برستے ہوئے بھاجپا نے کہا کہ اس فیصلے سے غریبوں کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ سرکار نے بغیر تیاری کے ہی اسکیم کا اعلان کردیا ہے۔ شاہنواز نے الزام لگایا کہ فیصلہ لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہے کیونکہ سرکار کے لئے بی پی ایل خاندانوں کی صحیح تعداد پتہ نہیں ہے۔ ایک طرف مسلسل بڑھتی مہنگائی اور دوسری طرف ترقی شرح گھٹ رہی ہے تو سرکار اس اہم مسئلے سے جنتا کی توجہ بانٹنے کے لئے اس طرح کی اسکیم اعلان کررہی ہے۔ ایسے میں ہر سال 9 کروڑ سے زیادہ کنبوں کو قریب30 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کرنا بہت بڑی چنوتی ہوگی۔ تمام سرکاری قواعد کے باوجود ابھی بینکوں کی پہنچ صرف 35 فیصدی لوگوں تک ہے اور اقتصادی و کمزور طبقہ تو اور بھی دب گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟