ایک چنگاری بھی تختہ پلٹ کیلئے کافی ہوتی ہے

17 دسمبر2010ء سے پہلے تک پوری دنیا میں کوئی بھی آدمی طارق الطیب محمد بجو جی جانتا نہیں تھا۔ بجو جی تیونس کے شہر سدی باؤجد میں پھل بیچتا تھا۔ پولیس کی ذیادتی اور کرپشن سے پریشان ہوکر اس نے آگ لگا لی تھی۔یا یوں کہیں کہ تیونس میں انقلاب کی آگ لگا دی تھی۔ بجو جی 4 جنوری 2011ء کو یہ دنیا چھوڑ گیا تھا لیکن اس کے بعد تیونس کے صدر زین العابدین بن علی 10 دن بھی اقتدار میں نہ رہ پائے۔ ان کے 23 سال کے عہد کا خاتمہ 14 جنوری 2011ء کو ہوگیا۔ صدر بن علی ہی نہیں بجوجی کی موت نے مصر ،بحرین، لیبیا، یمن، الجزائر سمیت پورے عرب خطے میں ناراضگی کی لہر پیدا کردی۔ ہندوستان میں ایک دریامنے طبقے کی بٹیا کی موت نے بھی شاید ایسی ہی چنگاری لگادی کہ حکمرانوں کو دیش کی عوام کی آواز کے سامنے جھکنا پڑا۔ انامیکا، دامنی یا جو کچھ اس بدقسمت کا نام رہا ہو، نے بھارت کو تو ہلا ہی دیا ہے ساتھ ساتھ مہذب دنیا کو بھی توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اقوام متحدہ سے لیکر تمام غیر ملکی میڈیا میں یہ معاملہ چھایا رہا۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمشنر نوی پلے نے دہلی اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ کی موت پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے حکومت ہند سے اپیل کی کے ایسے واقعات کو روکنے کے لئے دیش کے قانون و انتظام کو مضبوط بنایا جائے۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے انامیکا کی لاش کو اسٹریچر پر لے جاتے ہسپتال ملازمین کی فوٹو لگائی ہے ساتھ میں ایک بینر والی فوٹو بھی شائع کی ہے جس میں سونیا ،منموہن اور شیلا دیکشت سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے۔ ’نیویارک ٹائمس‘ نے عنوان دیا ہے ’وکٹم آف گینگ ریپ اِن انڈیا ڈائز ویٹ گیلون نائزڈ انڈیا‘ یعنی بھارت میںآبروریزی کی متاثرہ کی موت جس نے بھارت کو ہلا دیا۔ اخبار نے لکھا کے متاثرہ نے خاموشی سے آخری سانس لی۔ اس کی موت ان خطروں کے تئیں وارننگ ہے جس کا سامنا بھارت میں عورتیں کررہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ماہرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس واردات سے عام طور پر سنجیدہ ہندوستانیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس واردات کے تئیں غصہ بدلتی طرز زندگی، سوشل میڈیا کے استعمال اور بڑبولے سماج کے سبب بھی بڑھا ہے۔ انہی اسباب کے چلتے پچھلے سال کرپشن کے خلاف تحریک کو کامیابی ملی تھی۔ دہلی میں23 سالہ انامیکا کے واقعے نے عام ہندوستانیوں کا ہی نہیں بلکہ پورے دیش کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ پڑوسی چین کے میڈیا می بھی بھارت کے سماج اور سسٹم پر طنز کیا ہے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ہندوستانی جمہوری نظام اور قوم کی لاچاری کو ظاہر کرتے ہے۔ رپورٹ میں چینی مبصر کے حوالے سے لکھا گیا ہے بھارت اقتصادی ترقی میں چین سے قریب ایک دہائی پیچھے ہے اور سماجی سیکٹراور ترقی میں تین دہائی پیچھے چل رہا ہے۔ چین کے اخبار ’گلوبل ٹائمس‘ نے لکھا ہے بھارت میں عورتوں پر ذیادتیاں چونکانے والی ہیں۔ نئی دہلی میں2011ء میں آبروریزی کے 572 معاملے ہوئے اور پچھلے40 سالوں میں ان کی تعداد میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ کبھی کبھی حکمراں طبقہ عوام کے درمیان بھڑک رہی جوالہ کو پہچاننے میں بھول کر جاتا ہے ایک چھوٹی سی چنگاری ایسی آگ بھڑکا سکتی ہے جس کے بہت دوررس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!