چلئے مل کر سنکلپ لیں کہ دامنی کی قربانی ضائع نہیں جائے گی

آج جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں گے تو نیا سال شروع ہوچکا ہوگا۔ اس نئے سال2013ء کی شروعات پر ہم سب مل کر ایک عہد کریں۔ دہلی آبروریزی کی وہ بدقسمت23 سالہ طالبہ نام اس کا چاہے ہم دامنی لیں، نربھایا لیں یا انامکا کہیں، اس کا بے رحمانہ قتل ضائع نہیں جائے گا اور اس کی قربانی سے ہم سب مل کر سماج کی ذہنیت اور سرکار، انتظامیہ، عدلیہ سبھی میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے تاکہ ایسی گھناؤنی حرکت کوئی درندہ پھر سے کرنے کی ہمت نہ کرے۔ چلئے میرے ساتھ سبھی یہ عہد کریں آج پورا دیش غمزدہ ہے۔ انڈیا گیٹ سے لیکر گیٹ وے آف انڈیا کے نامعلوم بہادروں نے اربن انڈیا پارٹی کا نظریہ ہی بدل دیا ہے۔ سبھی میں نئے سال کو لیکر اب تک کوئی خوشی ہے اور نہ کوئی جزبہ۔ دہلی میں جہاں پارٹی والوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے وہیں ممبئی کے تین بڑے پانچ ستارہ ہوٹلوں نے اپنے نئے سال کی پارٹی منسوخ کردی ہے۔ سارے دیش میں ایک طرف غم کی لہر تو دوسری طرف ناراضگی اور درد ہے۔ سوشل سائٹوں سے لیکر گلی گلی اور محلہ درمحلہ شردھانجلی دی جارہی ہے لیکن کیا اس شردھانجلی سے سماج جاگے گا اور آگے ایسے واقعات رکیں گے؟ کیا آنسوؤں کے اس سیلاب سے سماج اس طرح کے درندوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کا قدم اٹھائے گا۔ کم سے کم ماضی کے تجربوں سے تو اس پر یقین کرنا آسان نہیں ہے۔ سرکار یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ عوام کا غصہ اور واردات اور مظاہرے دوچار دن کا غصہ ہیں اور پھر حالات ویسے ہی ہوجائیں گے۔ یہ ہی ہمیں نہیں ہونے دینا ہے۔ بدفعلی کی شکار لڑکی کے جسم میں ایسے زخم تھے اس سے کہیں زیادہ گہرے زخم ہمارے سماجی اور قانونی نظام پر چھوڑ گئی ہے۔ جنہیں بھرنے میں پتا نہیں کتنا وقت لگے گا۔ دیش کی بٹیا نے تو دم توڑدیا لیکن دمدار قانون بنانے کے لئے وہ سب کو جگا گئی۔ تحریکوں کو تاریخ میں دیش میں یہ پہلا موقعہ تھا جب بغیر کسی لیڈر شپ یا گروپ یا اپیل کے لوگ سڑکوں پر اترا کرتے تھے۔ 17 دسمبر تھے ایک انجان لڑکی کے لئے شروع ہوئی تحریک کو انجام تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ 10دنوں تک دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال میں گم سم پڑی رہی لڑکی کو انصاف دلانے کے لئے لوگ پولیس کی لاٹھیاں، آنسو گیس کے گولے اور ٹھنڈمیں پانی کی بوچھاروں کے آگے بھی نہیں جھکتے دکھائی دئے۔ پہلی بار مظاہرین بغیر کسی جھجک کے راشٹرپتی کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ دیش کی فوجی طاقت کی جھانکی دکھانے والے انڈیا گیٹ پر شاید پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لڑکوں نے اپنی طاقت دکھائی۔ اس طرح جب کسی لڑکی کی موت ہوتی ہے تو صرف لڑکی نہیں مرتی۔ ہمارے آپ کے گھروں میں رہنے والی ہر لڑکی کے اندر کا ایک حصہ مرتا ہے کیونکہ کوئی بھی لڑکی یا عورت صرف ایک جسم نہیں ہوتا۔ وہ ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور ایک شہری بھی ہوتی ہے۔ اس طرح اب کوئی آبروریزی ہوتی ہے تو وہ صرف ایک شخص کی گھناؤنی حرکت نہیں ہوتی ہم سب مل کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ رشوت خور پولیس کانسٹیبل جو یہ نہیں جاننا چاہتا کہ کوئی بس کالے شیشے لگاکر غلط روٹ پر کیوں چل رہی ہے یا غلط جگہ پر کیوں کھڑی ہے۔ ایک بے ایمانی افسر جو اس بات کی جانچ نہیں کرتا کہ کوئی عدالت سے ضمانت لے کر نکلے جرائم پیشہ افراد بس اسٹاف کی شکل میں کیسے رکھے گئے ہیں۔ ایک لچر قانونی سسٹم جو دیکھنا ضروری نہیں سمجھتا کہ بغیر سرکاری ایجنسیوں کو مطلع کئے ،بغیر منظوری لئے کوئی ٹرانسپورٹر اپنا آفس کیسے بدل سکتا ہے۔ ایک سرکاری محکمے کی لیپا پوتی، ایک لیڈر کا بیان اور ایک دقیانوسی نظریئے والا مرد کا دماغ، ایک صدر جو پانچ جانوروں کو پھانسی کی سزا کم کردیتا ہے، یہ سب مل کر آبروریزی کے لئے زمین تیار کرتے ہیں کیونکہ عورتوں کے ساتھ ایسا صرف دہلی میں نہیں دیش کے کونے کونے میں ہورہا ہے۔ عوام کا غصہ جائز ہے اس کانڈ سے پیدا ناراضگی کی بنیادی آواز یہ ہی ہے کہ ہمیں محفوظ زندگی جینے کا حق ملے۔ ایسے کرپٹ سسٹم کو بدلا جائے جو جرائم کے لئے نرسری کا کام کررہا ہے۔ احتجاجی مظاہروں سے سرکار پر دباؤ بنایا جاسکتا ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ ذمہ داری سماج کی ہے۔ سماج کو جگانے کا وقت آگیا ہے۔ خاموشی توڑنے کا وقت آگیا ہے۔ دیش غصے میں ہے لیکن ان کے ضمیر کو غصے سے خاموشی نہیں ملنے والی ہے۔ اسے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیش کا نوجوان عہد کرے کے ایسے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے۔ 16 دسمبر کی رات کو ہوئے اس حادثے کے بعد بھی آبروریزی اور لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات رکے نہیں ہیں۔ اس حادثے کے بعد سے پچھلے16 دنوں میں آبروریزی کے تقریباً دو درجن سے زیادہ واقعات دیش کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ حکمراں طبقہ ہی نہیں سماج بھی ابھی تک جاگا نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ سکتے میں آنے والی حقیقت یہ ہے کہ دیش کی راجدھانی میں جب مسلسل غصے میں لوگ ہیں وہیں وحشی درندے این سی آر میں مسلسل اس طرح کی حیوانی حرکتوں کو تابڑ توڑ طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اب نیند سے جاگنے کا وقت آگیا ہے۔ اپنے فرض کو لیکر کنبے تک ہر سطح پر شروعات میں ہی ان واقعات کی مخالفت سے ہی یہ سلسلہ رک سکے گا۔ دیش کا جو جذبہ پچھلے14 دنوں میں دکھائی پڑا اسے جگائے رکھنا ہی اس لڑکی کو سچی شردھانجلی ہوگی۔ وہیں دیش کی دیگر بہو بیٹیوں کی سلامتی کی گارنٹی۔ دامنی ایک بہادر لڑکی تھی جس کا جذبہ دیکھ صفدرجنگ ہسپتال کے ڈاکٹر تک حیران تھے۔ وہ جینا چاہتی تھی، وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں ، ماں باپ کا اکیلا سہارا تھی۔ اترپردیش کے بلیا کے اس کے آبائی گاؤں میڑوڑا کلا میں ماتم چھایا ہوا ہے۔ لوگوں کے گھروں میں چولہے نہیں جلے۔ اترپردیش ۔بہار کی سرحد سے لگے گاؤں میں آبروریزی کی متاثرہ لڑکی کے ایک رشتے دار نے بتایا متاثرہ دور کی زندگی گزار رہے اپنے خاندان کے لئے ایک امید کی کرن تھی۔ بیحد غریب خاندان میں پیدا ان کی بھتیجے بہت ذہین اور جدوجہد والی تھی۔ اس کی اہلیت اور لگن کو دیکھتے ہوئے اس کے والد نے اسے اعلی تعلیم دلانے کے لئے اپنا پشتینی کھیت بیچ دیا تھا۔ اس کے باپ کو یقین تھا ایک دن ان کی بیٹی خاندان کو نہ صرف غریبی سے نجات دلائے گی بلکہ اسے ترقی کی راہ پر بھی لے جائے گی۔ لیکن وقت کے ظالم ہاتھوں نے سبھی امیدوں کو چکنا چور کردیا ہے۔ میری پوتی بیحد بہادر تھی اور اس نے آخرتک ہار نہیں مانیں۔ بٹیا کی پڑھائی پوری ہوگئی تھی اور اسے 35 ہزار روپے تنخواہ بھی ملنے لگی تھی لیکن بٹیا ہم سے دور جاچکی ہے۔ بس ہم یہ ہی چاہتے ہیں کہ سرکار کچھ ایساکرے کے ہماری پوتی جیسا واقعہ کسی اور لڑکی کے ساتھ نہ ہو یہ کہنا ہے لڑکی کے دادا کا۔ چلئے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم دامنی کانڈ کو اس بات تب تک لوگوں کو بھولنے نہیں دیں گے جب تک حکومت ، سماج ایسے کانڈدوبارہ روکنے کے لئے ٹھوس قدم نہیں اٹھاتا۔ سب کو جگا کر خود سو گئی بٹیا۔ سبھی پاٹھکوں کو نئے سال کی شبھ کامنائیں۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟