یہ سرکار جھکتی ہے بس جھکانے والا چاہئے!

دامنی کی قربانی آہستہ آہستہ رنگ لانے لگی ہے۔ ماحول بدلنے لگا ہے۔ سماج میں پولیس انتظامیہ میں تھوڑی تبدیلی آنی شروع ہوگئی ہے۔ اس بدلے ماحول کو دہشت کہیں یا ہوا کا رخ؟ وسنت وہار گینگ ریپ کی سنسنی خیز واردات کے بعد مہرولی تھانے میں دو طالبہ تین لڑکوں کے خلاف چھیڑ چھاڑ اور جان سے مارنے کی دھمکی کا الزام لگاتے ہوئے کیس درج کرایا۔ آبروریزی کے واقعے سے تنازعوں میں گھری دہلی پولیس نے فوراً چھیڑ خانی کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی دھڑ پکڑ کے لئے چھاپہ ماری کی۔ نتیجہ یہ ہوا تینوں ملزمان میں سے ایک نے پھانسی لگا کر جان دے دی اور دوسرے نے ڈر کے مارے زہر کھالیا۔ جان دینے والے نے خودکشی نامے میں لکھا ہے کہ اب میری وجہ سے کسی کو کوئی بھی دقت نہیں ہوگی، میں موت کو گلے لگا رہا ہوں۔ زہرکھانے والے ملزم کو نازک حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ جہاں اس کی حالت بقدر بہتر بتائی جاتی ہے۔ حالانکہ اتنی گھناؤنی واردات ہوئی ہے اور سارے دیش میں ناراضگی ہے لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سماج میں ماحول نہیں بدلا۔ پچھلے آٹھ گھنٹوں میں کہیں اسکول وین میں بچی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی وادات ہوئی تو شراب کے نشے میں آبروریزی کی کوشش بھی کی گئی۔ مزاحمت کرنے پر ملزمان کے ذریعے عورتوں اور بچوں کو مارا پیٹا بھی گیا۔ کل 9 تھانوں میں ہوئی واردات میں پولیس نے 14 لوگوں کو پکڑا ہے۔ ان مجموعوں میں ایک انجینئرنگ کی طالبعلم بھی شامل ہے۔ اگر یہ حکومت ،پولیس ،انتظامیہ اور سماج یہ سمجھتا ہے کہ عوامی ناراضگی دو چار دن کا موسم ہے وہ بھی ٹھنڈ کی طرح ٹھنڈا ہوجائے گا تو وہ سب غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ 20 سال پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا جب رنگا بلا نام کے دو قصورواروں نے ایک فوجی افسر کے بچوں کا اغوا کر بدفعلی کے بعد مار ڈالا تھا۔ اس وقت رنگا بلا کی پھانسی کی سزا پر روک کی مخالفت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اسکولی بچوں کی 30 ہزار چٹھیاں ملی تھیں۔ عدالت نے عوام کے جذبات کا احترام کر پھانسی پر روک ہٹائی تھی۔
تاریخ نے خود کو دوہرایا ہے لیکن سرکار بھول گئی ہے کہ وہ عوامی ناراضگی کو لاٹھی چار، آنسو گیس،پانی کی بوچھاروں یا بیریکیٹ لگا کر روک رہی ہے۔ کمیشن اور کمیٹیاں بنا کر خاموش کرنے کی کوشش کررہی ہے اگر یہ ہی کوشش جنتا کو خاص کر عورتوں کو سرکشا دینے کے لئے کی گئی ہوتی تو شاید یہ گھناؤنی واردات رک سکتی تھی۔ ہر یومیہ جمہوریہ پر صدر صاحب بہادر بچوں کو سنجے چوپڑا اور گیتا چوپڑا ایوارڈ سے نوازتے ہیں یہ ہی وہ دو بہادر بچے ہیں جنہوں نے ملزمان سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ کیا صرف جس طرح ان کی بہادری صرف ایک احترام یا اعزاز یا اقتصادی مدد تک سمٹ گئی ہے ویسے ہی اس گمنام بہادر لڑکی کی قربانی بھی بیکار چلی جائے گی۔ دیش کی خواتین اور بچوں پر عدم سلامتی کی تلوار بدستور لٹکی رہے گی۔ اگر 20 سال پہلے 30 ہزار اسکولی بچوں نے سپریم کورٹ پر اتنا دباؤ نہ ڈالا ہوتا تو آج تو لاکھوں کی تعداد میں پبلک اس بڑھتی درندگی کے خلاف آواز بلند کررہی ہے۔ انامیکا کی قربانی بیکار نہیں جائے گی۔ ہم سب مل کر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟