ٹھنڈر سے ٹھٹھرتے غریب و بے سہارا لوگ!

این سی آرسمیت پورے نارتھ بھارت میں لوگ سردی کے ستم کے شکار ہیں۔ راجدھانی دہلی میں 43 سال کا سردی کا ریکارڈ توڑتے ہوئے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11 ڈگری سے کم اور 9 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا۔ وہیں کم از کم سردی کا درجہ حرارت4.8 ڈگری تک درج کیا گیا۔ محکمہ موسمیات نے بتایا کہ 1970ء کے بعد دہلی میں اتنی ٹھنڈ کبھی نہیں پڑی۔ 2011ء میں جنوری میں یہ11 ڈگری تھا۔ پاکستان اور افغانستان کی طرف سے آنے والی سرد ہوائیں پہاڑی علاقوں میں برفباری، گھنے کہرے میں ڈوبتی سورج کی کرنوں کے سبب درجہ حرارت میں کمی درج کی گئی۔ اگلے کچھ دنوں میں سردی بڑھنے کا آثار ہیں۔ اب تک سردی سے100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ زیادہ تر اموات اترپردیش میں ہوئی ہیں۔ پنجاب و ہریانہ کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 2 ڈگری سے کم درج کیا گیا۔ موسم کے ماہرین کا کہنا ہے آنے والے دنوں میں دہلی سمیت شمالی ہندوستان میں کڑاکے کی سردی پڑے گی۔ ظاہر ہے ایسے میں عام آدمی کا ٹھٹھرنا اور بڑھ جائے گا اور ان لوگوں کی تعداد بھی بڑھے گی جو غریبی کے چلتے ٹھنڈ سے لڑتے ہوئے ہار جائیں گے۔ 
موسم کا یہ مزاج مستقبل میں بھی یوں ہی رہے گا یعنی ٹھنڈ ایسے ہی پڑتی رہے گی۔ یہ تو تقریباً طے ہے لیکن زبردست سردی کے سبب لوگوں کی جان جاتی رہے ان کی مجبوری تو ظاہر کرتی ہے اور سسٹم پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے جو خطرناک سردی کی لہر کے ساتھ ایک بار پھر سرکار اور انتظامیہ کی بے رخی اور بدانتظامی اجاگر کرتی ہے۔ پچھلے برس ایسے ہی موسم میں سپریم کورٹ نے دہلی میں واقعے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اینڈ سائنس کے برآمدے کے باہر ٹھٹھرے لوگوں کی تصویریں دیکھ کر دہلی سمیت تمام ریاستی سرکاروں کو یہ یقینی کرنے کے لئے ہدایت دی تھی کہ کسی بھی شخص کی موت ٹھنڈ سے نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن لگتا ہے ان کی اس ہدایت کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اکیلے ناردن انڈیا میں سرد لہر کے سبب 100 سے زائد لوگ جان گنوا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ یا تو تنگ جھونپڑیوں میں یا کسی آڑ کے سہارے ٹھٹھرتے ہوئے راتیں گذارنے پر مجبور ہیں۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے یہ لوگ اکثر ترقیاتی اسکیموں کے فائدے میں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں، ان کے لئے کوئی ماسٹر پلان نہیں بنتا نتیجتاً انہیں موسم کی مار جھیلنا پڑتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں اس سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی اس لئے ایک صحیح چھت کا انتظام کریں۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ مگر ایسا سال درسال ہوتا ہے ۔ یہ غریب جو جیسے تیسے پیٹ بھرنے کے لئے دن بھر کی سخت محنت کے بعد سڑک کے کنارے فٹ پاتھ ، ٹوٹی پھوٹی جھگیوں، کھلے میدانوں یا کھیتوں میں رات گذارنے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ غریب ہیں لہٰذا نہ تو ان کی کوئی آوا ز سنتا ہے۔ ایسے غریب لوگوں کے لئے کیا دہلی اور کیا یوپی ۔ یہ گمنام لوگ ہیں اور گمنامی کے اندھیرے میں ہی دم توڑدیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کیا ان لوگوں کو موت سے بچایا نہیں جاسکتا؟ لیکن سرکار نہ تو انتظامیہ کو ان گمنام لوگوں کی فکر ہے اور نہ چنتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟