متاثرہ کا نام ظاہر ہوناچاہئے تھرور کی رائے صحیح!

اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ مسٹر ششی تھرور مرکزی وزیر مملکت انسانی وسائل ترقی نے تجویز رکھی ہے کہ آبروریزی کی شکار لڑکی کی موت کے بعد اس کا نام ظاہرہونا چاہئے اور ساتھ ہی اس کو سنمانت بھی کرنا چاہئے۔ تھرور نے اپنے ٹوئٹ میں حیرانی ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لڑکی کا نام چھپائے رکھنے کا آخر کیا مقصد ہے۔ اگر لڑکی کے والدین کو اعتراض نہ ہو تو اس کا نام اور شناخت ظاہر کی جانی چاہئے تاکہ اسے سنمان دیا جاسکے۔ ترمیم کئے جارہے بدفعلی سے متعلق قانون کا نام بھی اس کے نام پر رکھا جانا چاہئے۔ وہ ایک انسان تھی جس کا نام تھا نہ صرف ایک سنبل۔ اس تبصرے پر بھاجپا نے نپا تلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وہیں کانگریس بچاؤ کی شکل میں دکھائی پڑتی ہے جبکہ انا ہزارے سے جڑی سماجی ورکر کرن بیدی نے ششی تھرور کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا ہے کہ میں انسداد بدفعلی کے نئے قانون کا نام اس لڑکی کے نام پر رکھنے کے لئے ششی تھرور کی تجویز کی حمایت کرتی ہوں۔ امریکہ میں بریڈی، میگن ، کارلی یا جیسیکا قانون جیسی کئی مثالیں ہیں۔ بھاجپا کے ترجمان شاہنواز حسین نے کہا کہ یہ وقت سخت قانون بنانے کا ہے نہ صرف متاثرہ کی شناخت کو چھپائے رکھنے یا سامنے لانے پر بحث کا۔آئی پی ایس کی دفعہ228A کے تحت متاثر کا نام شائع یا نشر کرنا جرم ہے۔ متاثرہ کی پہچان شائع کرنے کو لیکر دو انگریزی اخباروں کے خلاف پولیس نے کیس درج کیا ہے۔ بدھ کو جب متاثرہ کے بھائی اور والد سے یہ بات بلیا میں واقع ان کے آبائی گاؤں میں پوچھی گئی تو دونوں باپ بیٹے نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اور انہوں نے آبروریزی کے خلاف دیش میں جو سخت قانون بنانے کی بات جاری ہے اس کا نام ان کی بیٹی کے نام پر رکھا جاتا ہے تو انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اس کے تئیں سنمان ہوگا۔ سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس اور ہدایت کے مطابق آبروریزی کی شکار عورت کا نام سامنے نہیں لایا جاسکتا۔ اسی درمیان مرکزی وزیر داخلہ نے صاف کردیا ہے کہ مجوزہ قانون کو کسی شخص خاص کا نام دینے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ آئی پی ایس کی دفعہ میں کسی شخص کا نام شامل کرنے کی سہولت نہیں ہے۔ اس لئے سرکار یہ سلسلہ شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ جیساکہ میں نے کہا اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ ہماری رائے میں تو اس کا نام اب سامنے لانا چاہئے۔ اس کی قربانی کو یادگار بنانے کے لئے یہ ضروری ہے۔ قانون میں متاثرہ کا نام اس لئے بچا کر رکھا گیا ہے تاکہ اس کا جینا مشکل نہ ہوجائے اور سماج میں اس کی اور بے عزتی نہ ہو، یہ ٹھیک بھی ہے۔ لیکن اس کیس میں یا ایسے ہی معاملوں میں جب متاثرہ اپنی جان گنوا چکی ہے تو اس کیس میں فرق ہوجاتا ہے۔ آج اس متاثرہ کے نا م پر اسکول، ہسپتال ،فلائی اوور وغیرہ وغیرہ بنانے کی تجویزیں آرہی ہیں۔ اگر نام ہی نہیں ہوگا تو کس کے نام پر یہ سب سمرپت ہوگا؟کیا قانون اس کے نام پر بنانا ہے یہ ہی فیصلہ سرکار کو کرنا ہے لیکن اس بدقسمت کا نام اس کو یاد کرنے کے لئے ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!