13 دن۔رات جدوجہد کے بعد بدقسمت طالبہ نے دم توڑا

دہلی گینگ ریپ کی بدقسمت طالبہ نے 13 دن کی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے بعد سنیچر کی صبح آخر کار اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ سنگاپور کے مشہور ایلزبتھ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی تمام کوششوں کے باوجود اس بیچاری کو بچایا نہیں جاسکا۔ جمعہ سے ہی اس کی طبیعت بگڑنا شروع ہوگئی تھی۔ سنیچر کی رات کو اس کے ضروری اعضاء فیل ہونے کے اشارے ملنے لگے تھے۔ ماؤنٹ ایلزبتھ ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو چیئرمین کیلوین لوہ نے ایک بیان میں کہا کہ رات کو 9 بجے ،ہندوستانی وقت کے مطابق شام6.30 بجے مریضہ کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور اس کے اہم ترین اعضا معمول کے مطابق نازک دور میں تھے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بیچاری کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی ۔ تکنیکی نقطہ نظر سے تو اس بیچاری کی موت تو صفدرجنگ ہسپتال میں ہی ہوگئی تھی۔ یہ سارا ڈرامہ تو حکومت نے غصے کو کنٹرول کرنے کی غرض سے رچا تھا۔ اب جب اس طالبہ کی موت ہوگئی ہے تویکا یک سنگاپور بھیجنے کے سرکار کے فیصلے پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ خود ڈاکٹروں نے سرکار کے اس فیصلے پر انگلی اٹھانی شروع کردی ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صفدرجنگ ہسپتال میں بھرتی23 سالہ متاثرہ لڑکی کو علاج کے لئے سنگاپور بھیجنے کے پیچھے طبی وجوہات کم سیاسی وجوہات زیادہ نظر آرہی تھیں۔ اخبار کے مطابق جب اجتماعی آبروریزی کی شکار متاثرہ کو سنگاپور منتقل کرنے کا فیصلہ لیا تو علاج کررہے ڈاکٹروں سے بس اتنا پوچھا گیا کیا متاثرہ لڑکی سنگاپور لے جانے کی حالت میں ہے؟ حکومت نے علاج کررہے ڈاکٹروں کی اسپیشل ٹیم سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ سنگاپور شفٹ کیا جائے یا نہیں؟ یا پھر سنگاپور میں علاج ہوگا جو بھارت میں نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹروں کی ماہرین کی ٹیم میں ایمس ، جی بی پنت ہاسپٹل اور صفدرجنگ ہسپتال کے ڈاکٹر شامل تھے۔ڈاکٹروں نے الزام لگایا کہ سرکار فیصلہ لے چکی تھی۔ متاثرہ کو سنگاپور بھیجا جائے؟ ڈاکٹروں کا دعوی ہے کہ ہم پچھلے 11 دنوں سے مریض کو بہتر طبی مدد دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق متاثرہ کو سنگاپور بھیجنے کا فیصلہ ڈاکٹروں کا نہیں تھا بلکہ سرکار کی طرف سے لیا گیا فیصلہ تھا۔ دہلی کے سرگنگارام ہسپتال نے تو آنت کے ٹرانسپلانٹ کی بھی پیشکش کی تھی۔
بھارت کے ڈاکٹردنیا بھر میں مشہور ہیں اور ہزاروں غیر ملکی بھارت آکر اپنا علاج کراتے ہیں۔ سنگاپور منتقل کرنے کا فیصلہ سیاسی تھا۔ سرکار احتجاجوں سے بری طرح ڈر گئی تھی۔ اگر متاثرہ نے صفدر جنگ ہسپتال میں دم توڑا تو جنتا کے غصے کو قابو کرنا مشکل ہوجائے گا اور اس کا ردعمل اب بھی ہوگا۔ ہاں ایک فرق ضرور آگیا ہے کہ اب جب طالبہ کی موت ہوچکی ہے اس نکمی اور غیر ذمہ دار حکومت کو ملزمان کو پھانسی پر نہ لٹکانے کا کوئی بہانہ نہیں بچا۔ ہم متاثرہ لڑکی کے کنبے کو بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ آج آپ کے دکھ میں سارا دیش شریک ہے اور ہم بھی پرارتھنا کرتے ہیں کہ متاثرہ لڑکی کی آتما کو شانتی ملے۔
(انل نریندر)

تبصرے

  1. hukmaran hamesha say gharib logoon ki zindageoon pr apni siasut chmkatay hain, kabi wo mazhabi rung ikhtiyar kr laytay hain our kabi mazhub say bay zar nazar aatay hain..... Q K un ki nazar srif apnay iqtadar pr hoti hai

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟